ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
کے چند نمونے جو مختلف قدرتی مناظر کی تصویر کشی پر مشتمل تھے دِکھلائے پھر بتلانے لگے کہ ہمارے یہاں کے ایک طالب علم نے جو شروع سے جامعہ مدنیہ جدید میں زیر تعلیم ہے روزانہ بیس پچیس کلو میٹر دُور بحریہ ٹاؤن سے آتا ہے اُن کو بتلایا کہ میرے چھوٹے بھائی جو تیسری چوتھی کلاس میں .................. اسکول میں پڑھتے ہیں پاکستان کے مختلف شہروں میں اُس کی دسیوں شاخیں ہیں میرے بھائی اپنی ڈرائنگ کا کام مجھ سے کر والیتے ہیں اِس کام کوا سکول کے اَساتذہ بہت پسند کرتے ہیں بلکہ اپنے ا سکول کی بہتر کار گردگی کو نمایاں کرنے کے لیے اُن ڈرائنگوں کے فریم کر واکراپنے دفاتر اور کلاس رُوم میں آویزاں کر رکھے ہیں۔ اسکول عملہ کو بچوں نے بتلایا کہ یہ ڈرائنگ ہمارا بھائی بناتا ہے اُنہوں نے کہا کہ اُس کو ہمارے سکول لے کر آؤ، تیرہ چودہ برس کا یہ طالب علم وہاں گیا تو اسکول اِنتظامیہ نے جامعہ جدید کے اُس بچہ کو پیش کش کی کہ تم ہمارے اسکول میں روزانہ ایک گھنٹہ کے لیے آجایا کرو ہم تم کو ماہانہ بارہ ہزار روپے دیا کریں گے، بچے نے جواب دیا کہ روزانہ آنے جانے میں میری جامعہ جدید کی تعلیم متاثر ہوگی اِس لیے معذرت ہے اَلبتہ میری جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے بس اُس دِن آسکتا ہوں۔ اِس واقعہ کو تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم میں ہر مضمون کو اُس کی اہمیت کے مطابق اگر وقت دیا جائے اور بچوں کی نفسیات کا بھی خیال رکھا جائے تو کم سے کم وقت میں بہتر سے بہتر فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔ ہمارے یہاں کے ماہرین ِ تعلیم اِس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ مسلسل اور لگاتار غیرضروری دوہرائی سے بچے اُکتا نہ جائیں لہٰذا اُن کے معصوم ذہنوں اور کمزور جسموں پر اُتنا ہی بار ڈالا جاتا ہے جس سے اُن کی تعلیم دوستی میں اِضافہ ہوتا رہے اور کسی قسم کی نفسیاتی اُلجھنیں اُن کی ترقی کی رفتار کو متاثر نہ کر سکیں، نیز ہمارے یہاں بچوں پر غیر ملکی اَجنبی زبان میں ہر مضمون پڑھانے کا غیر ضروری بوجھ نہیں ڈالا جاتا لہٰذا وہ اپنی قومی اور مادری زبان میں بات کو بہت تھوڑے وقت میں پوری طرح سمجھ جاتے ہیں۔