ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
(سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ) (سُورة النمل : ٢٧) ''ہم اب دیکھتے ہیں تو نے سچ کہا یا تو جھوٹا ہے۔'' جب تک تُو حقیقت واضح نہیں کردیتا ہم تیرے دعوے کو ہر گز تسلیم نہیں کریں گے پھر آپ نے ملکہ سباکی طرف ایک خط تحریر فرمایا اور ہد ہد کو خط پہنچانے کا حکم فرمایا۔ (اِذْھَبْ بِّکِتٰبِیْ ھٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَیْھِمْ) (سُورة النمل : ٢٨) '' لے جا میرایہ خط اور ڈال دے اُن کی طرف۔'' اور خط پہنچانے کا کوئی مناسب طریقہ اِختیار کرنا اور اِس بات کا خیال رکھنا کہ وہ تمہیں دیکھ نہ لیں نیز چھپ کر دیکھنا کہ وہ اِس بارے میں کیا بات چیت کرتے ہیں اور اُن کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے ؟ ہدہد نے خط لیا اور فضا میں چکر لگاتا ہوا اُڑگیا اور ملکہ سبا کے کمرے کی کھڑکی پر جا اُترا جس میں ملکہ بلقیس آرام کرتی تھی، اُس نے کمرے کے اَندر جھانکا اور کسی کو نہ پاکر غنیمت سمجھتے ہوئے خط اُس کی چار پائی پر ڈال دیا اور کھڑکی کے پردے کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا، جب بلقیس وہاں پہنچی لباس تبدیل کیا اور خادماؤں کو رُخصت کر کے سونے کے لیے اپنی مسہری کی طرف بڑھی تو اُس نے وہاں ایک خط پڑا دیکھا اور اُسے کھول کر مندرجات پڑھنے لگی جیسے ہی خط کے آخری جملے تک پہنچی اُس کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا وہ خط پکڑ کر ٹہلنے لگی، وہ خط ِمضمون کے متعلق اور اِس کے وہاں تک پہنچنے کے بارے میں سوچتی رہی حتی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف وصول ہونے والے اِس خط کے متعلق سوچتے سوچتے سوگئی۔ صبح سویرے نیند سے بیدار ہونے کے بعد اُس نے حکام اور مجلس شوریٰ کے اَرکان کو مشورہ کے لیے طلب کیا، جیسے ہی وہ لوگ حاضر ہوئے اُس نے اُنہیں مخاطب کیا : ( یٰاَیُّھَا الْمَلَائُ اِنِّیْ اُلْقِیَ اِلَیَّ کِتَاب کَرِیْم اِنَّہ مِنْ سُلَیْمَانَ وَاِنَّہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ) (سُورة النمل : ٢٩ تا ٣١ ) ''اے درباوالو ! میرے پاس ڈالا گیا ایک خط عزت دار۔ وہ خط ہے سلیمان کی