ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
نے تدوین و ترتیب میں پوری توجہ اور دماغ سوزی سے کام لیا، تب بھی ظاہر ہے کہ اُس دستور ِ اَساسی اور اُس کی دفعات کی منظوری اکثریت کی رائے پر موقوف تھی اور ایوان میں اگرایک پارٹی مثلاً کانگریس کی اکثریت تھی تو یہ دستور ِ اَساسی ایک پارٹی کا دستور ہوا اور جمہوریت کا مصداق صرف یہی اکثریت تھی پھریہ ہو سکتا ہے کہ اُس پارٹی کے ووٹوں کی مجموعی تعداد مخالفین کی تعداد سے کم ہو مثلاً جمہور کے تیس فیصدی ووٹ کانگریس کوملے اور سترفیصدی دُوسری پانچ چھ پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے تو بیشک ایوان میں اکثریت کانگریس کو حاصل ہوگئی مگرظاہرہے کہ مصنوعی اکثریت تیس فیصدی کی نمائندگی کرتی ہے اور اب جمہور کا اِطلاق صرف تیس فیصدی پر ہورہا ہے۔ یہ دستورِ اَساسی کے وضع و ترتیب کی صورت تھی جس کو تمام قوانین میں بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ جملہ قوانین اِس ڈھانچہ کا گوشت پوست ہوتے ہیں جو دستور ساز اِسمبلی دستور ِاَساسی کی صورت میں تیار کرتی ہے۔ دستورِ اَساسی کے علاوہ عام قانون جو اِجلاسوں میں پیش ہو کر منظور ہوتے رہتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر اُنہیں جمہور کے سر تھوپا جاتا ہے اُن کے واضعین در حقیقت وہ چند اَفراد ہوتے ہیں جو کابینہ (CABENET) کے رُکن ہوتے ہیں۔ کیبنٹ کا پیش کردہ مسودہ قانون پارٹی کو لا محالہ منظور کرنا پڑتا ہے کیونکہ اِس کو مسترد کرنے کے معنی ہوتے ہیں گورنمنٹ پر بے اِعتمادی ظاہر کرنا۔ مختصر یہ کہ عوامی حکومت اور جمہور کے اِقتدارِ اَعلیٰ کے نعرے صرف نمائشی ہوتے ہیں اور حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اِقتدار ِ اَعلیٰ چند اَفراد کے چھوٹے سے حلقے میں سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ اِسلام کون سی جمہوریت کا حامی ہے : بے شک اِسلام جمہوریت کا حامی ہے بلکہ بانی ہے مگر اِس کے معنی یہ ہیں : (١) تمام اِنسان درجہ ٔ اِنسانیت میں مساوی ہیں ،وہ کالے ہوں یا گورے، عرب ہوں یا عجم، مشرقی ہوں یا مغربی، سب ایک ماں باپ کی اَولاد ہیں۔