ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
کا چھلکا، کوڑا کر کٹ یا اِیندھن بن جاتا ہے ،ووٹ دینے والے بھی ووٹ دینے کے بعد بے مغز پوست بلکہ گردِپابن جاتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ مغز ہی اَصل ہے بادام کی گری ہی بادام کا حاصل ہے، اگر گِری کام آرہی ہے تو بادام بیکار نہیں گیا اور ضائع نہیں ہوا۔ عوام کے نمائندے اگر قانون بنا رہے ہیں تو وہ قانون عوام ہی کا بنا ہوا قانون ہے اگر وہ نمائندے حکومت کر رہے ہیں تو وہ عوام ہی کی حکومت ہے۔ مگر کیا واقعی یہی ہوتا ہے کہ قانون عوام کے نمائندے بناتے ہیں اور عوام کے نمائندے ہی حکومت کرتے ہیں ؟ کون نہیں جانتا کہ ٨٠ فیصد نمائندے وہ ہوتے ہیں جو قانون بنانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، سینکڑوں ممبروں کے ایوان میں چند اَفراد کی کمیٹی بنادی جاتی ہے جو قانون کا مسودہ تیار کرتی ہے، اصل واضع ِقانون ١ یہ کمیٹی ہوتی ہے دس پندرہ فیصد وہ ہوتے ہیں جو قانون کو سمجھتے ہیں باقی تعداد جو سینکڑوں کی ہیبت اَنگیز اور مرعوب کن تعداد ہوتی ہے اِس دس فیصد کی تقلید کرنے والی ہوتی ہے مثلاً جمہوریہ ہندکادستور ِ اَساسی جن پر مفکرین ِ ہند کو ناز ہے اور جس کا وہ ساری دُنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں بیشک وہ مجلس ِدستور ساز کا منظور کردہ ہے جس کے اَرکان کی تعداد تقریبًا پانچ سو تھی جس میں اَقلیتوں کو بھی مناسب نمائندگی دی گئی تھی لیکن واقعہ یہ ہے کہ اُس کا مسودہ ایک کمیٹی نے تیار کیا اور کمیٹی کے اَرکان نے بھی سہولت کار کے لیے تدوین اور ترتیب کا کام ایک قابل شخص (ڈاکٹر امبید کر) کے سپرد کر دیا تھا، مسودہ تیار کرنے میں کمیٹی کے اَرکان بھی وقتًا فوقتًااِن کی مدد کردیتے تھے، بیشک وہ مسودہ اَرکان کے سامنے پیش کیا گیا۔ اِسمبلی کے اِجلاس میں اُس کی ایک ایک دفعہ پڑھی گئی اُس میں ترمیمات بھی ہوئیں لیکن یہ سب نقش و نگار کی تبدیلیاں تھیں بنیادی ستون وہی رہے جن کی بنیاد ڈاکٹر امبید کر نے ڈالی تھی اور اگر ہم اِس نمائش ہی کو حقیقت گردان لیں اور تسلیم کرلیں کہ دستور ِ اَساسی دستور ساز اِسمبلی ہی کے اَرکان نے مرتکب کیا تھا اور ہر ایک رُکن وضع قانون اور ترتیت دستور ِ اَساسی کی پوری صلاحیت رکھتا تھا اور اُس ١ قانون ساز