ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رودیے پھر ایک ہزار دینار تھیلی میں رکھ کر سعید بن عامر کے پاس روانہ کیے ،فرمایا : اُن کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ یہ اَمیر المومنین نے تمہارے لیے بھیجے ہیں کہ اِن کو اپنی ضروریات میں صرف کریں۔ راوی کاکہنا ہے کہ قاصد دیناروں کی وہ تھیلی لے کر اُن کے پاس آیا، اُنہوں نے تھیلی کو دیکھا تو پتہ چلا کہ اِس میں دینار ہیں آپ فورًا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے لگے، آپ کی اہلیہ نے پوچھا کہ کیا ہوا ، کیا اَمیر المومنین شہید کردیے گئے ؟ فرمایا اِ س سے بھی بڑی مصیبت پیش آگئی ہے۔ اہلیہ نے عرض کیا کہ کیا کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے ؟ فرمایا کہ اِس سے بھی بڑھ کر بات پیش آگئی ہے۔ اہلیہ نے عرض کیا کہ قیامت کی کوئی علامت ظاہر ہوگئی ہے ؟ فرمایا معاملہ اِس سے بھی بڑھ کر ہے۔ اہلیہ کہنے لگیں کہ آخر بتائیے تو سہی کہ ہوا کیا ہے ؟ فرمایا کہ دُنیا میرے پاس آگئی ہے، فتنہ میرے پاس آ گیا ہے ،فتنہ مجھ پر چھا گیا ہے ۔ اہلیہ نے کہا کہ (فکرکی کون سی بات ہے) اِن دیناروں میں آپ کو اِختیار ہے اِن میں آپ جیسے چاہیں تصرف کریں۔ آپ نے اہلیہ سے فرمایا تم کچھ مدد کر سکتی ہو ؟ عرض کیا کہ جی کیوں نہیں ؟ آپ نے دیناروں کو تھیلیوں میں بھر کر ایک جھولے میں ڈال دیاپھر رات بھر نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر وہ تھیلیاں لے کر مسلمانوں کے لشکر کے پاس گئے اور اُن سب کو تقسیم کردیا۔ آپ سے اہلیہ نے کہا کچھ دینار روک ہی لیتے جن سے اپنی ضروریات پوری فرماتے