یحکم بہ الحاکم او یعلقہ بموتہ فیقول اذا مت فقد وقفت داری علی کذا]١٥٣١[ (٢) وقال ابو یوسف رحمہ اللہ یزول الملک بمجرد القول]١٥٣٢[ (٣) وقال محمد رحمہ اللہ تعالی لا یزول الملک حتی یجعل للوقف ولیا ویسلمہ الیہ۔
قال نعم قال فانی اشھدک ان حائطی المخراف صدقة علیھا (الف) (بخاری شریف، باب الاشھاد فی الوقف والصدقةص ٣٨٧ نمبر ٢٧٦٢) اس حدیث میں حضرت سعد بن عبادہ نے وقف پر گواہ بنایا اور حضورۖ کو گواہ بنایا گویا کہ حتمی وقف کے لئے فیصلہ بھی کروانا ہے۔اس لئے اس حدیث سے اشارہ ملتا ہے کہ قاضی یا والی کے فیصلہ کے بعد وقف کی چیز واقف کی ملکیت سے نکلے گی (٣) حضرت عمر کے اثر سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ وقف لکھوانا چاہئے ۔عن یحیی ابن سعید عن صدقة عمر بن الخطاب قال نسخھا لی عبد الحمید بن عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر بن الخطاب بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذا ما کتب عبد اللہ عمر فی ثمغ فقص من خبرہ نحو حدیث نافع (ب (ابو داؤد شریف، باب ماجاء فی الرجل یوقف الوقف ص ٤٢ نمبر ٢٨٧٩) اس اثر میں حضرت عمر نے وقف کو با ضابطہ لکھا ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ لکھنے کے بعد واقف کی ملکیت ختم ہوگی۔
]١٥٣١[(٢)امام ابو یوسف نے فرمایا زائل ہوجائے گی ملک صرف کہنے ہی سے۔
تشریح امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ واقف صرف کہہ دے کہ میں نے وقف کیا تو اس کی ملکیت وقف کے مال سے ختم ہو جائے گی،چاہے حاکم نے فیصلہ نہ کیا ہو یا موت پر وقف معلق نہ کیا ہو۔
وجہ ان کی دلیل وہ احادیث ہے جن مین واقف نے موت پر معلق کیا ہے اور نہ فیصلہ کروایا ہے۔مثلا حدیث میں ہے۔عن انس قال امر النبی ۖ ببناء المسجد فقال یا بنی النجار ثامنونی بحائطکم ھذا قالوا لا وللہ لا نطلب ثمنہ الا الی اللہ (ج) (بخاری شریف ، باب اذا وقف جماعة ارضا مشاعا فھو جائز ص ٣٨٨ نمبر ٢٧٧١) اس حدئث میں قضاء قاضی کا تذکرہ ہے نہ موت پر معلق کیا ہے،اور زمین کی ملکیت صرف واقف کے کہنے سے ختم ہو گئی ہے۔
]١٥٣٢[(٣) اور امام محمد نے فرمایا نہیں زائل ہوگی ملکیت یہاں تک کہ وقف کے لئے کسی کو ولی بنائے اور اس کو اس کی طرف سپرد کردے تشریح امام محمد کے نزدیک واقف کی ملکیت اس وقت زائل ہوگی جب وقف کے لئے کسی کو ولی بنائے اور وقف اس کو سپرد کردے تب ملکیت زائل ہوگی۔
حاشیہ : (الف) سعد بن عبادہ کی والدہ کا انتقال ہوا اس حال میں کہ وہ غیر حاضر تھے۔پس حضورۖ کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول !میری ماں کا انتقال ہوا اور میں غائب تھا۔کیااگر میں صدقہ کچھ ان کو نفع دے گا؟ آپۖ نے فرمایا ہاں ! سعد نے فرمایا میں آپۖ کو گواہ بناتا ہوں کہ مخراف کا باغ ماں کے لئے صدقہ ہے(ب) عمر بن خطاب نے ثمغ کے صدقے کے بارے میں یوں لکھا۔بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ لکھا اللہ کے بندے عمر نے مقام ثمغ کے بارے میں ،پھر حضرت نافع کی حدیث کی طرح بیان کیا(ج) آپۖ نے مسجد بنانے کا حکم دیا تو آپۖ نے فرمایا بنی نجار مجھ سے اس باغ کا بھاؤ کرو۔ان لوگوں نے کہا خدا کی قسم اس کی قیمت نہیں چاہتے ہیں مگر اللہ سے۔