]٨٦٢[ (٤) وان نظر الی وجہ الصبرة او الی ظاھر الثوب مطویا او الی وجہ الجاریة او الی وجہ الدابة وکفلھا فلا خیار لہ ]٨٦٣[(٥) وان رأی صحن الدار فلا خیار لہ وان لم
، جس سے معلوم ہوا کہ بیچنے والے کو خیار رویت نہیں ہوگا (٣) اثر سے پتہ چلتا ہے کہ بائع کو خیار رویت نہیں ملے گا عن ابن ابی ملیکة ان عثمان ابتاع من طلحة بن عبید اللہ ارضا بالمدینة ناقلہ بارض لہ بالکوفة فلما تباینا ندم عثمان ثم قال بایعتک مالم ارہ فقال طلحة انما النظر لی انما ابتعت مغیبا و اما انت فقد رایت ما ابتعت فجعلا بینھما حکما فحکما جبیر ابن مطعم فقضی علی عثمان ان البیع جائز وان النظر لطلحة انہ ابتاع مغیبا (الف) (سنن للبیھقی ، باب من قال یجوز بیع العین الغائبة ج خامس ص ٤٣٩، نمبر١٠٤٢٤) اس اثر میں جبیر بن مطعم نے بائع حضرت عثمان کو خیار رویت نہیں دیا بلکہ مشتری حضرت طلحہ کو خیار رویت دیا۔جس سے معلوم ہوا کہ بائع کو خیار رویت نہیں ملے گا۔
اصول بائع کے لئے خیار رویت نہیں ہے۔
]٨٦٢[(٤)اگر ڈھیر کے اوپر کا حصہ دیکھا یا لپیٹے کپڑے کے ظاہری حصے کو دیکھا یا باندی کا چہرہ دیکھا یا جانور کا چہرہ دیکھا اور اس کا پچھلا حصہ دیکھا تو اس کے لئے خیار رویت نہیں ہے۔
تشریح مبیع کے ہر ہر عضو کو دیکھنا ضروری نہیں ہے ۔بلکہ عرف میں جس عضو یا جس حصے کو دیکھنا شمار کیا جاتا ہے اس حصے کو دیکھنا کافی سمجھا جائے گا۔اور اسی کو دیکھنے سے خیار رویت ختم ہو جائے گا۔مثلا ڈھیر کے اوپر کے حصے کو دیکھنے سے پورے ڈھیر کی معلومات ہو جاتی ہے۔اس لئے اوپر کے حصے کو دیکھنا کافی ہوگا۔اسی طرح باندی کے چہرے کو دیکھنے سے پوری باندی کا علم ہو جاتا ہے اس لئے چہرہ دیکھنے سے خیار رویت ساقط ہو جائے گا۔ جانور کے چہرے اور سرین کو دیکھنے سے پورا علم ہوتا ہے اوراس لئے انہیں کو دیکھنے سے خیار رویت ساقط ہو جائے گا۔ اصول جس حصے کے دیکھنے سے پوری مبیع کا علم ہو جائے اس حصے کے دیکھنے سے خیار رویت ساقط ہو جائے گا۔
لغت مطویا : لپیٹا ہوا۔ کفل : جانور کی سرین۔
]٨٦٣[(٥)اور اگر گھر کے صحن کو دیکھا تو مشتری کو اختیار نہیں ہوگا چاہے اس کے کمروں کو نہ دیکھا ہو۔
تشریح مصنف کے ملک میں کمرے ایک طرح کے ہوا کرتے تھے اور صحن کو دیکھنے سے کمروں کا اندازہ ہو جاتا تھا اس لئے فرمایا کہ صحن کے دیکھنے سے خیار رویت ساقط ہو جائے گا۔چاہے کمروں کو نہ دیکھا ہو۔لیکن جن ملکوں میں کمرے کے اندر کا حصہ الگ الگ انداز کا ہو ان ملکوں میں کمرے کے اند ردیکھنا ہوگا۔اس کے بغیر خیار رویت ساقط نہیں ہوگا وجہ اور اصول اوپر گزر گئے۔
حاشیہ : (ب) ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے طلحہ بن عبید اللہ سے مدینہ میں زمین خریدی کوفہ میںزمین کی بدلے میںمال غنیمت میں ملی تھی۔ پس جب دونوں جدا ہوئے تو حضرت عثمان کو ندامت ہوئی پھر فرمایا میں نے ایسی چیز بیچی جو دیکھی نہیں ہے تو حضرت طلحہ نے فرمایا خیار رویت مجھے ہوگی۔اس لئے کہ میں نے غائبانہ کی چیز خریدی ہے۔ بہر حال آپ نے دیکھاہے جس کو بیچا ہے ۔تو دونوں نے حضرت جبیر بن مطعم کو حکم بنایا تو انہوں نے حضرت عثمان کے خلاف فیصلہ فرمایا کہ بیع جائز ہے اور خیار رویت حضرت طلحہ کے لئے ہے۔اس لئے کہ انہوں نے غیبوبت کی چیز خریدی ہے۔