Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

306 - 457
]١٤٢١[(٤) وکذالک ان قال ضمنتہ اوھو علیَّ او الیَّ او انا بہ زعیم او قبیل بہ]١٤٢٢[ (٥) فان شرط فی الکفالة تسلیم المکفول بہ فی وقت بعینہ لزمہ احضارہ اذا طالبہ بہ فی ذلک الوقت فان احضرہ والا حبسہ الحاکم۔ 

]١٤٢١[(٤)اور ایسے ہی کہا کہ میں اس کا ضامن ہوں یا وہ میرے اوپر ہے یا میری طرف ہے یا میں اس کا ذمہ دار ہوں یا میں اس کا کفیل ہوں  تشریح  ان الفاظ کے کہنے سے بھی کفیل ہو جائے گا۔  
وجہ  کیونکہ یہ الفاظ کفالت پر دلالت کرتے ہیں۔لفظ علیَّ بھی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آتا ہے۔حدیث میں ہے۔عن جابر قال کان النبی ۖ لا یصلی علی رجل علیہ دین ... قال انا اولی بکل مؤمن من نفسہ من ترک دین فعلی ومن ترک مالا فلورثتہ (الف) (نسائی شریف، باب الصلوة من علیہ دین ص ٢٠٧ نمبر ١٩٦٤) اس حدیث میں فَعَلَیَّ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کفالت کے معنی میں ہے کہ جس نے دین چھوڑا میں اس کا کفیل ہوں۔اس لئے علیَّ کی وجہ سے بھی کفالت ہو جائے گی۔  اور اِلَیَّ کا لفظ بھی ذمہ داری اور کفالت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔حدیث میں ہے۔عن ابی ھریرة انہ قال من ترک مالا فللورثة ومن ترک کلا فالینا (ب) (مسلم شریف ، باب من ترک مالا فلورثتة ص ٣٥ نمبر ١٦١٩ ٤١٦١) اس حدیث میں فَاِلَیْنَا کفیل بنے کے معنی میں ہے۔ا لزعیم کا لفظ کفیل کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس کے لئے قرآن کی آیت اور حدیث الزعیم غارم گزر گئی ہے۔اور قبیل کے لفظ سے کفالہ ہوگا اس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے قبالہ آتا ہے چیک کے معنی میں ۔اور قبالہ بھی کفالت کے معنی میں ہوتا ہے۔
]١٤٢٢[(٥)پس اگر کفالہ میں شرط کی گئی ہو مکفول بہ کو سپرد کرنے کی مقرر وقت میں تو کفیل کو اس کا حاضر کرنا لازم ہے جب اس کو اس وقت میں مطالبہ کرے،پس اگر اس کو حاضر کردیا تو ٹھیک ہے ورنہ ھاکم کفیل کو قید کر لے گا۔  
تشریح  کفالہ بالنفس میں یہ شرط لگائی تھی کہ مکفول بہ کو متعین وقت میں حاضر کرے گا تو کفیل پر لازم ہے کہ جب مکفول بہ کو طلب کرے اس وقت اس کو حاضر کردے۔پس اگر اس نے مقررہ وقت میں مکفول بہ کو حاضر کر دیا تو بہتر ہے۔اور اگر حاضر نہ کر سکا اور کئی مرتبہ مطالبہ کے بعد بھی حاضر نہیں کیا اور مکفول بہ زندہ ہے اور دار الاسلام میں موجود ہے تو اب کفیل کو حاکم قید کرے گا ۔
 وجہ  اس نے وعدہ خلافی کی اور دوسرے کا حق مارا اس لئے اس کو قید کرے گا (٢) اثر میں اس کا ثبوت موجود ہے کہ خاف وعدہ پر حضرت شریح نے خود اپنے بیٹے کو قید کیا۔سمعت حبیبا الذی کان یقدم الخصوم الی شریح قال خاصم رجل ابنا لشریح الی شریح کفل لہ برجل علیہ دین فحبسہ شریح فلما کان اللیل قال اذھب الی عبد اللہ بفراش وطعام وکان ابنہ یسمی عبد اللہ (ج) (سنن للبیھقی ، باب ماجاء فی الکفالة ببدن من علیہ حق، ج سادس،ص ١٢٨،نمبر١١٤١٨ مصنف عبد الرزاق ، باب الکفلاء ،ج ثامن، 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا میں ہر مؤمن کے نفس سے بھی زیادہ قریب ہوں ۔جس نے قرض چھوڑا وہ مجھ پر ہے ۔اور جس نے مال چھوڑا وہ اس کے ورثہ کے لئے ہے(ب) آپۖ نے فرمایاجس نے مال چھوڑا وہ اس کے ورثہ کے لئے ہے۔اور قرض چھوڑا وہ ہمارے ذمہ ہے(ج) حضرت حبیب فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے شریح کے پاس اس کے بیٹے کو جھگڑے کے لئے لے گیا جو ایک آدمی پر قرض کا کفیل بناتھا۔تو قاضی شریح نے اس کو قید کر لیا۔پس رات ہوئی تو (باقی اگلے صفحہ پر) 

Flag Counter