Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

305 - 457
جائزة والمضمون بھا احضار المکفول بہ]١٤٢٠[ (٣) وتنعقد اذا قال تکفلت بنفس فلان او برقبتہ او بروحہ او بجسدہ او برأسہ او بنصفہ او بثلثہ۔

مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سزا نہیں بھگتے گا تو میں اس کے بدلے سزا بھگت لوں گا۔  
وجہ  کفالہ بالنفس جائز ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ سمعت ابا امامة قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول ... ثم قال العاریة مؤداة والمنحة مردودة والدین مقضی والزعیم غارم (الف) (ابو داؤد شریف، باب فی تضمین العاریة ص ١٤٥ نمبر ٣٥٦٥ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی ان العاریة موداة ص ٢٣٩ نمبر ١٢٦٥) اس حدیث میں الزعیم غارم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کفیل ذمہ دار ہے۔اور اس میں دونوں قسم کے کفیل شامل ہو سکتے ہیں،کفیل بالنفس بھی اور کفیل بالمال بھی۔اس سے کفالہ بالنفس کا ثبوت ہوا (٢)اثر میں اس کا ثبوت ہے کہ حضرت حمزہ نے مجرم کے لئے کفالہ بالنفس لیا تھا۔ حمزة بن عمرو الاسلمی عن ابیہ ان عمر بعثہ مصدقا فوقع رجل علی جاریة امرأتہ فاخذ حمزة من الرجل کفلاء حتی قدم علی عمر وکان عمر قد جلدہ مأة جلدة فصدقھم وعذرھم بالجھالة۔اسی اثر کے دوسرے حصے میں ہے۔وقال جریر والاشعث لعبد اللہ بن مسعود فی المرتدین استتبھم وکفلھم فتابوا وکفلھم عشائر ھم وقال حماد اذا تکفل بنفس فمات فلا شیء علیہ (ب) (بخاری شریف ، باب الکفالة فی القرض والدیون بالابدان وغیرھا ص ٣٠٥ نمبر ٢٢٩٠)ان دونوں اثر سے معلوم ہوا کہ کفالہ بالنفس لینا جائز ہے  فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ دوسرے کی ذات پر کفیل کا بس نہیں چلے گا اس لئے کفالہ بالنفس لینا جائز نہیں ہے۔ہم کہتے ہیں کہ دوسرے کو حاضر کرنے کی استطاعت تو ہے اس لئے کفالہ بالنفس جائز ہے۔
]١٤٢٠[(٣)کفالہ بالنفس منعقد ہو تا ہے اگر کہے میں فلاں کی جان کا کفیل بنا یا اس کی گردن کا یا اس کی روح یا اس کے جسم یا اس کے سر یا اس کے آدھے کا یا اس کی تہائی کا کفیل ہوں۔  
تشریح  یہاں سے یہ ذکر ہے کہ کس طرح کہنے سے یا کن کن الفاظ سے کفالہ بالنفس ثابت ہو جائے گا۔تو قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ لفظ جس سے پورا انسان مراد ہوتا ہو ان الفاظ سے کفالہ بالنفس ہو جائے گا۔مثلا نفس سے پورا انسان مراد ہوتا ہے۔اسی طرح گردن بولنے سے پورا انسان مراد لیتے ہین۔اسی طرح روح، جسم  اور سر سے پورا انسان مراد لیتے ہیں۔اور آدھا اور تہائی کا لفظ پورے انسان میں شائع ہوتے ہیں اس لئے ان لفظوں سے بھی پورا انسان مراد ہوگا اور کفالہ بالنفس ثابت ہو جائے گا۔
 
حاشیہ  :  (الف)آپ فرماتے تھے عاریت پر لی ہوئی چیز ادا کی جائے گی،عطیہ واپس کیا جائے گا اور دین ادا کیا جانا چاہئے اور کفیل ضامن ہوتا ہے(ب) حضرت عمر نے حمزہ بن عمر اسلمی کو صدقہ وصول کرنے کے لئے بھیجا۔پس ایک آدمی نے حضرت عمر کی بیوی کی باندی سے بدکاری کر لی تو حمزہ نے اس آدمی سے کفیل بانفس لئے یہاں تک کہ حضرت عمر آجائے۔اور حضرت عمر نے اس کو سو کوڑے لگائے تھے۔پس اس کی تصدیق کی۔اور نہ جاننے کی وجہ سے اس کو معذور قرار دیا۔عبد اللہ بن مسعود نے مرتدین سے توبہ کروائی اور اس سے کفیل لیا،پس ان لوگوں نے توبہ کی اور ان کے خاندان والوں نے کفیل بالنفس دیا۔اور حماد نے فرمایا کوئی کفیل بالنفس بنا پھر مکفول لہ مرگیا تو اس پر کچھ نہیں ہے۔

Flag Counter