Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

281 - 457
]١٣٧٢[ (٣) الا فی الحدود والقصاص فان الوکالة لا تصح باستیفائھمامع غیبة الموکل عن المجلس ]١٣٧٣[(٤) وقال ابو حنیفة رحمہ اللہ تعالی لا یجوز التوکیل 

بڑھے جو ان لوگوں میں سے چھوٹے تھے تو آپ نے بات کرنے کے لئے بڑے کو خصومت کا وکیل بنایا۔حدیث کا ٹکڑا یہ ہے۔قال انطلق عبد اللہ بن سھل ومحیصة بن مسعود بن زید الی خیبر ... فذھب عبد الرحمن یتکلم فقال ۖ کبر کبر وھو احدث القوم فسکت فتکلما (الف)(بخاری شریف ، باب الموادعة والمصالحة مع المشرکین بالمال وغیرہ ص ٤٥٠ نمبر ٣١٧٣) اس حدیث میں مقدمہ پیش کرنے کے لئے بڑے کو وکیل بنایا جس سے معلوم ہوا کہ خصومت کے لئے وکیل بنا سکتا ہے (٤) اثر میں ہے۔عن عبد اللہ بن جعفر قال کان علی بن ابی طالب یکرہ الخصومة فکان اذا کانت لہ خصومة وکل فیھا عقیل بن ابی طالب فلما کبر عقیل وکلنی (ب) (سنن للبیھقہی، باب التوکیل فی ا؛لخصومات مع الحضور والغیبة، ج سادس ،ص١٣٤،نمبر١١٤٣٧) اس اثر میں ہے کہ حضرت علی خود خصومت نہیں کرتے بلکہ حضرت عقیل کو خصومت کا وکیل بناتے۔
]١٣٧٢[(٣)مگر حدود اور قصاص میں کہ ان کو حاصل کرنے کی وکالت صحیح نہیں ہے اس مجلس میں موکل کے موجود نہ ہونے کی حالت میں  تشریح  مجلس میں موکل موجود نہ ہو تو حدود اور قصاص کو حاصل کرنے کی وکالت صحیح نہیں ہے۔ہاں ! مجلس میں موکل موجود ہو تو حدود اور قصاص کو حاصل کرنے کا وکیل بنایا جا سکتا ہے۔  
وجہ  حدود اور قصاص شبہ سے بھی ساقط ہو جاتے ہیں۔اور موکل موجود نہ ہو تو یہ شبہ ہے کہ موکل نے اخیر وقت میں حدود یا قصاص لینے سے معاف کر دیا ہو۔اس لئے اس کی موجود گی کے بغیر وکیل بنانا جائز نہیں (٢) حدیث میں ہے کہ جہاں تک ہو سکے حدود اور قصاص کو ساقط کرنے کی کوشش کرو اور وکیل بنانے میں اس کو مضبوط کرنا ہوگا۔حدیث میں ہے۔عن عائشة قالت قال رسول اللہ ۖ ادرء وا الحدود عن المسلمین مااستطعتم ،فان کان لہ مخرج فخلوا سبیلہ فان الامام ان یخطیٔ فی العفو خیر من ان یخطیٔ فی العقوبة (ج) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی درء الحدود ص ٢٦٣ نمبر ١٤٢٤ ابن ماجہ شریف ، باب الستر علی المؤمن ودفع الحدود بالشبھات ص ٣٦٥ نمبر ٢٥٤٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حدود و قصاص کو ساقط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
]١٣٧٣[(٤)امام ابو حنیفہ نے فرمایا خصومت کی وکالت جائز نہیں ہے مگر مقابل کی رضامندی سے ،مگر یہ کہ موکل بیمار ہو یا غائب ہو اس طرح کہ تین دن یا اس سے زیادہ کے سفر پر ہو ۔
 تشریح  امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ مد مقابل راضی ہو یا پھر موکل کو مجبوری ہو مثلا بیمار ہو کہ مجلس قضا میں نہیں آسکتا ہو یا تین دن کے سفر پر ہو تو مد 

حاشیہ  :  (الف) حضرت عبد الرحمن بات کرنے لگے تو آپ ۖ نے فرمایا بڑے بات کریں، بڑے بات کریں۔کیونکہ عبد الرحمن قوم میں سے چھوٹے تھے تو وہ چپ رہے اور بڑے دونوں نے حضورۖ سے بات کی(ب)حضرت علی مقدمہ کو ناپسند فرماتے تھے۔پس ان کے لئے کوئی مقدمہ ہوتا تو وہ اس میں عقیل بن ابی طالب کو وکیل بناتے۔پس جب حضرت عقیل بوڑھے ہو گئے تو مجھے وکیل بنانے لگے(ج) آپۖ نے فرمایا جب تک ہو سکے مسلمانوں سے حدود کو دفع کیا کرو۔ پس اگر ان کے لئے نکلنے کا کوئی راستہ ہو تو راستہ چھوڑ دو۔اس لئے کہ امام معافی میں غلطی کرے یہ زیادہ بہتر ہے کہ سزا میں غلطی کرے۔

Flag Counter