Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

163 - 457
لہ فی الدین وکذبہ فی التاجیل لزمہ الدین حالا ویستحلف المقر لہ فی الاجل]١١١٤[ (١٥) ومن اقر بدین و اسثنی شیئا متصلا باقراہ صح الاستثناء ولزمہ الباقی وسواء استثنی 

لازم ہوگا اور مقر لہ سے قسم لی جائے گی تاخیر کے بارے میں۔  
تشریح  مثلا زید نے عمر کے لئے اقرار کیا کہ مجھ پر آپ کے ایک ہزار درہم قرض ہیں۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایک مہینے کی تاخیر کے ساتھ ہے۔عمر نے تصدیق کی کہ ایک ہزاردرہم قرض ہیں لیکن تاخیر کی تکذیب کی اور کہا کہ وہ دین تو فوری ادا کرنے کی شرط کے ساتھ ہے تاخیر کے ساتھ نہیں ہے۔ تو زید پر فوری قرض ادا کرنا لازم ہوگا۔تاخیر قابل قبول نہیں ہوگی۔البتہ عمر مقر لہ تاخیر کا انکار کرتا ہے اس لئے اس پر اس انکار کے سلسلے میں قسم لازم ہوگی۔  
وجہ  زید دو باتوں کا اقرار کر رہا ہے۔ایک دین کا اور دوسرا تاخیر کا ۔عمر نے دین کی تصدیق کی اس لئے وہ لازم ہو گیا اور تاخیر کا انکار کیا اس لئے وہ منکر ہو گیا اور مدعی زید کے پاس تاخیر کے ثبوت کے لئے بینہ نہیں ہے اس لئے منکر عمر پر عدم تاخیر کے لئے قسم لازم ہوگی۔اوپر حدیث گزر چکی ہے کہ منکر پر قسم ہے۔  
لغت  التاجیل  : تاخیر، تاخیرکے ساتھ مدت دیں۔  یستحلف  :  قسم لی جائے گی۔ 
(  احکام استثناء  )
]١١١٤[(١٥) کسی نے دین کا اقرار کیا اور کسی چیز کا استثناء کیا اپنے اقرار کے ساتھ ہی تو استثناء صحیح ہے۔اور لازم ہوگا اس کو باقی ،چاہے کم کا استثناء کرے یا زائد کا ۔
 تشریح  کسی نے کسی کے لئے مثلا سو پونڈ دین کا اقرار کیا لیکن اقرارکے متصل ہی دس پونڈ کا استثناء کیا مثلا یوں کہا کہ عمر کے میرے اوپر سو پونڈ ہیں مگر دس پونڈ تو استثناء کے بعد جو نوے پونڈ باقی بچے وہ لازم ہوںگے۔  
وجہ  محاورات میں استثناء کرکے بولنے کا رواج ہے۔اس لئے استثناء کرکے بولنا صحیح ہے۔اور استثناء کے بعد جو باقی بچتے ہیں اسی کا اعتبار ہوتا ہے۔مثال مذکور میں سو پونڈ میں دس پونڈ استثناء کرکے باقی نوے پونڈ بچے تھے اس لئے نوے پونڈ کا اقرار مانا گیا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اقرار کے ساتھ ہی استثناء کرے تب اس کا اعتبار ہو گا۔ اور اگر جملہ پورے ہونے کے بعد استثناء کرے تو یوں سمجھا جائے گا کہ پورے کا اقرار کرکے اب مثلا دس پونڈ سے رجوع کر رہا ہے۔اس لئے منفصل استثناء کا اعتبار نہیں ہے۔حدیث میں استثناء کیا گیا ہے اور متصلا کیا گیا ہے۔عن ابی ھریرة روایة قال للہ تسعة وتسعون اسما مائة الا واحدا من حفظھا دخل الجنة وھو وتر یحب الوتر (الف) (بخاری شریف ، باب للہ مائة اسم غیر واحدة، ص ٩٤٩ ،نمبر ٦٤١٠،کتاب الدعوات  مسلم شریف ، باب فی اسماء اللہ تعالی و فضل من احصاھا ص ٣٤٢ نمبر ٢٦٧٧ ٦٨١٠ کتاب الذکر والدعاء ) اس حدیث میں آپۖ نے سو سے ایک کو متصلا استثناء کیا ہے اور اللہ کے ننانوے نام گنائے ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ متصلا استثناء صحیح ہے۔اور استثناء کے بعد باقی عدد کا اعتبار ہو گا۔ 

حاشیہ  :  (الف) ابو ہریرة کی روایت ہے،اللہ کے ننانوے نام ہیں سو مگر ایک کم  جس نے ان کو یاد کیا جنت میں داخل ہوگا۔اللہ طاق ہے طاق کو پسند کرتا ہے۔

Flag Counter