Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

161 - 457
دراھم ]١١٠٧[ (٨) فان قال لہ علی دراھم فھی ثلثة الا ان یبین اکثر منھا]١١٠٨[ (٩) وان قال لہ علی کذا کذا درھما لم یصدق فی اقل من احد عشر درھما]١١٠٩[ (١٠) وان قال کذا و کذا درھما لم یصدق فی اقل من احدوعشرین درھما]١١٠[ (١١) وان 

ّآگیا۔اس لئے دراہم جمع کا صیغہ آخری دس تک ہے اس لئے دراہم کثیرة بولا تو دس درہم کا اقرار کرنا ہوگا ۔
 فائدہ  صاحبین فرماتے ہیں کہ دراھم کثیرة سے کثرت اموال مراد ہے اور وہ شریعت کی نگاہ میں مال نصاب ہے اس لئے دوسو درہم کا اقرار ضروری ہے۔
]١١٠٧[(٨) پس اگر کہا فلاں کے مجھ پر دراہم ہیں تو وہ تین درہم ہوںگے۔مگر یہ کہ اس سے زیادہ بیان کردے۔  
تشریح  کوئی یوں اقرار کرتا ہے کہ مجھ پر فلاں کے دراہم ہیں ۔جمع کا صیغہ بولتا ہے لیکن اس کے بعد کثیرة کا اضافہ نہیں کرتا ہے تو اس پر تین درہم لازم ہوںگے  وجہ  دراہم جمع کا صیغہ ہے اور عربی میں جمع کا اطلاق کم سے کم تین پر ہے اس لئے تین کا اقرار کرنا ہوگا۔اور اگر اس سے زیادہ کا اقرار کرے تو اس کی مرضی ہے۔کیونکہ جمع کا صیغہ زیادہ پر بھی شامل ہے۔
]١١٠٨[(٩)اگر کہا فلاں کے مجھ پر اتنے اتنے درہم ہیں تو نہیں تصدیق کی جائے گی گیارہ سے کم میں۔  
وجہ  اتنے اتنے دو مرتبہ بولا ہے تو عدد میں دو مرتبہ کی عدد گیارہ میں آتی ہے۔ اور درمیان میں حرف عطف واو بھی نہیں ہے تو یہ شکل گیارہ میں ہوتی ہے۔ کہتے ہیں احد عشر درھما۔اس میں دو عدد ہیں ایک احد اور عشر اور درمیان میں واو بھی نہیں ہے۔اس لئے گیارہ سے کم درہموں میں تصدیق نہیں کی جائے گی۔
]١١٠٩[(١٠) اور اگر کہا اتنے اور اتنے درہم ہیں تو نہیں تصدیق کی جائے گی اکیس درہم سے کم میں۔   
وجہ  عربی عدد بولنے میں اکیس کے عدد میں دو عدد آتی ہیں اور دونوں کے بیچ میں حرف واو آتا ہے۔کہتے ہیں احد و عشرون درہما،اس لئے جب کذا و کذا کہا تو اکیس درہم سے کم میں تصدیق نہیں کی جائے گی۔ہاں اس سے زیادہ کا اقرار کرے تو جائز ہے۔کیونکہ وہ بھی کذا وکذا میں شامل ہے۔
]١١١٠[(١١)اور اگر کہا کہ فلاں کے مجھ پر یا میری طرف ہے تو یہ دین کا اقرار ہے۔  
وجہ  عربی میں علی کا لفظ اپنے اوپر لازم کرنے کے لئے آتا ہے ۔اس لئے اگر یوں کہا کہ میرے اوپرہے تو یوں سمجھا جائے گا کہ اس پر فلاں کا قرض ہے۔اثر میں اس کا اشارہ ہے۔عن سرق قال کان لرجل مال علیَّ او قال علی دین(الف) (دار قطنی ،کتاب البیوع ج ثالث ص ٥١ نمبر ٣٠٠٦ ) اس اثر میں مال علیَّ سے اپنے اوپر دین لازم کرنے کا اقرار ہے اس لئے کسی نے علَیَّ کہا تو دین کا اقرار سمجھا جائے گا۔اور قِبَلِیْ میری طرف سے بھی دین کا اقرار ہوگا۔کیونکہ یہ بھی اپنے اوپر لازم کرنے کے لئے آتا ہے۔  

حاشیہ  :  (الف) حضرت سرق نے فرمایا کہ میرے اوپر ایک آدمی کا قرض تھا یا یوں فرمایا کہ مجھ پر دین تھا۔

Flag Counter