ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
(١)باریک کپڑا نہ پہنا(٢) چھانے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا(٣) اَپنے مکان کا دَروازہ بند نہ کرنا(٤) کوئی دَربان نہ رکھنا تاکہ جس وقت جو حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے بے روک ٹوک آسکے (٥)بیماروں کی عیادت کو جانا(٦) جنازوں میں شرکت کرنا۔ ایک مرتبہ تمام صوبوں کے حکام کو فرمان بھیجا کہ موسمِ حج میں سب مکہ میں مجھ سے ملاقات کریں چنانچہ سب وقت ِ متعین پر جمع ہوگئے اَور آپ نے مجمع ِ عام میں کھڑے ہو کر فرمایا میں نے اُن لوگوں کو جو تم پر حاکم بنایا ہے وہ اِس لیے کہ تم کو آرام پہنچائیں، نہ اِس لیے کہ تم پر ظلم کریں، اگر کسی پر کسی حاکم نے ظلم کیا ہو تو وہ کھڑا ہو جائے ۔ اِس اعلان پر صرف ایک شخص کھڑا ہوا اَور اُس نے کہا اَمیر المومنین میرے حاکم نے مجھے سو کوڑے مارے ہیں، آپ نے فرمایا اچھا تم بھی اِس کے سوکوڑے مارلو۔ اُٹھو میرے سامنے قصاص لے لو حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اَور اُنہوں نے کہا اَمیر المومنین اگر ایسا ہوگا تو آپ کے حکام کی کچھ وقعت نہ رہے گی تو فرمایا کہ تم چاہتے ہو کہ قصاص نہ لیا جائے حالانکہ میں نے رسول اللہ ۖ کو دیکھا کہ خود اَپنی ذات سے قصاص دِلواتے تھے۔ اے شخص اُٹھ اَور قصاص لے۔ عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اَمیر المومنین اچھا اِس بات کی اِجازت دیجئے کہ ہم اِس شخص کو راضی کر لیں چنانچہ وہ شخص اِس طرح راضی ہو اکہ ہر کوڑے کے عوض دو اَشرفیاں دی گئیں۔ ایک روز آپ کسی راستے سے گزر رہے تھے کہ یکایک کسی شخص نے آواز دی کہ اَمیر المومنین اَپنے حکام کے لیے جو شرطیں آپ لگادیتے ہیں اُن سے آپ کو نجات نہیں مِل سکتی۔ عیاض بن غنم حاکم ِ مصر باریک لباس بھی پہنتا ہے اَور اُس کے دَروازے پر دَربان بھی رہتا ہے،یہ سن کر آپ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بلایا (حکام کے پاس قاصد بنا کر وہی بھیجے جاتے تھے) اَور اُن سے فرمایا کہ مصر جاؤ اَور عیاض بن غنم کو جس حالت میں پاؤ اُسی حالت میں لیتے آؤ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو دیکھا دَروازے پر دَربان ہے، اَندر جا کر دیکھا کہ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ ایک باریک