ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
نظام ِ جمہوریت ( حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہم ،دارُالعلوم کراچی ) اِس وقت دُنیا میں یہ کہا اَور سمجھا جا رہا ہے کہ دُنیا کے مختلف نظاموں کے تجربات کرنے کے بعد آخر میں سیکولر جمہوریت ہی سب سے بہتر نظام ِ حکومت ہے یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اَب اِس سے بہتر نظام ِ حکومت وجود میں نہیں آ سکتا۔ اَبھی حال ہی میں اَمریکہ کی وزارت ِ خارجہ کے ایک بڑے اَفسر کی طرف سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے The End Of The History and the Last Man ''تاریخ کا خاتمہ اَور آخری آدمی'' جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ میں جو اِرتقاء ہوتا رہا ہے اِس کے بعد اَب تاریخ اَپنی اِنتہاء پر جا پہنچی ہے، سیکولر جمہوریت دَریافت کرنے کے بعد اَور لِبرل جمہوریت تیار کرنے کے بعد اَب کوئی اَچھا نظام وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ باقاعدہ اِسی طرح کی پیش گوئی ہے جیسے کسی زمانے میں کارل مارکس کہا کرتا تھا کہ اِشتراکی نظام ہی دُنیا کا آخری نظام ہے اَور اِس کے بعد کوئی اَور بہتر نظام وجود میں نہیں آئے گا۔ اِسی طرح سیکولر جمہوریت اَور سرمایہ دَارانہ نظام کے بارے میں بھی یہ بات کہی جا رہی ہے بالخصوص رُوس کی سویت یونین کے سقوط کے بعد یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ سیاست میں سیکولر جمہوریت اَور معیشت میں سرمایہ دَارانہ نظام کو عملاً ایسی فتح حاصل ہو گئی ہے کہ اَب کوئی دُوسرا نظام اِس کی ہمسری نہیں کر سکتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ نظام جس کو جمہوریت کہا جاتا ہے یہ کس قدر پختہ اَور معقول نظام ہے ؟ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے تحت بعض ایسے اُصول دُنیا میں پھیلے جنہوں نے بحیثیت ِمجموعی فرد کی آزادی کو فائدہ پہنچایا۔ اِس سے پہلے مطلق العنان حکومتیں اَور بادشاہتیں تھیں یا ڈِکٹیٹرشپ تھی اُن میں جو جبرو تشدد ہوتا تھا یا فرد پر جو ناروا پابندیاں عائد ہوتی تھیں اِس نظام میں اُن کا