ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
تکبیر اَور تعظیم شعائراللہ کا مقدس دِن عید ( حضرت اَقدس مولانا سیّد محمد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ ) محدث ،فقیہ،مؤرخ،مجاہد فی سبیل اللہ،مؤلف کتب کثیرہ لفظ ِ عید اَور اُس کی حقیقت : ''عید'' عربی لفظ ہے ہم اِس کو نام کے طور پر اِستعمال کرتے ہیں جیسے ''ہولی'' ، ''دِیوالی'' ایک تہوار مانا جاتا ہے شب ِ برات اَور محرم کو تہوار کہا جاتا ہے ایسے ہی عید اَور بقر عید بھی دو تہواروں کے نام سے سمجھے جاتے ہیں مگر اَپنے اَصل و حقیقت کے لحاظ سے ''عید'' کے یہ معنی نہیں ہیں۔ عِید ، عَود، عُود،عادت، اِن سب الفاظ کا مأخذ ایک ہی ہے اَور ''بار بار'' ہونے کا مفہوم اِس مأخذ یعنی ''عود'' کا بنیادی نقطہ اَور مرکزی مفہوم ہے۔ اِس بناء پر ہر دِن ''عید'' ہے کیونکہ وہ بار بار آتا رہتا ہے اَور نہ صرف دِن بلکہ ہر ایک رات اَور ہر ایک شب ِدیجور کو بھی ''عید'' کہا جا سکتا ہے کیونکہ اِس کا چکر بھی برابر چلتا رہتا ہے اَور وہ بھی یکے بعد دیگرے مسلسل آتی رہتی ہے لیکن محاورہ اَور عرف ِ عام نے کچھ حدیں قائم کردیں۔ ''ع ی د'' کے اِس لفظی قالب میں مسرت اَور خوشی کی رُوح پھونکی گئی ہے کامیابی اَور بامرادی کا ہار اِس کے گلے میں ڈالا گیا اَور اِجتماعی زندگی کا تاج اِس کے سر پر رکھا گیا یعنی ''عید'' اُس پر مسرت اَور بامراد دِن کو کہا جانے لگا جو اِجتماعی اَور قومی زندگی کی تاریخ میں کسی کامیابی اَور کامرانی کا مالک ہو اَور اِس کی یاد بار بار دِلا کر جسمِ ملت کی سوکھی رگوں میں مسرت کی اُمنگ اَور خوشی کی تازگی پیدا کرتا رہتا ہو۔ لفظ اَور معنی کے تجزیہ اَور تحلیل کے بعد ہم اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ لفظ ِ ''عید'' اَپنے مأخذ کے لحاظ سے کچھ ہی معنی رکھتا ہو مگر محاورہ اَور عرف ِ عام میں وہ ہندی لفظ ''تہوار'' کا مفہوم اَدا کرتا ہے۔