ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
بڑی حدتک خاتمہ ہوا اَور یہ بھی درست ہے کہ لوگوں کے اِظہار ِ رائے پر جو جو قد غن تھی وہ جمہوریت نے دُور کی، علاوہ اَزیں مطلق العنان بادشاہتوں میں جو گھٹن کی فضا ء پائی جاتی تھی اُس کو جمہوریت نے بڑی حد تک رفع کیا ۔ ''جمہوریت''منفی عمل کا منفی ردِّعمل : لیکن اگر اِس کے بنیادی تصور کے لحاظ سے دیکھئے تو یہ نظام دَر حقیقت کسی سنجیدہ فکر پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں کے اُن نظاموں کا ردِ عمل ہے جو خود ساختہ تصورات کے تحت لوگوں پر جابرانہ حکومت کر رہے تھے۔ آپ نے دیکھاہے کہ یورپ کی تاریخ کے بیشتر حصے میں مطلق العنان بادشاہتیں رہیں، اگر کہیں مذہب کا دَرمیان میں ذکر آیا بھی یا مذہب کو بنیاد بنایا گیا بھی تو تھیوکریسی کی اُن خرابیوں کے ساتھ جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہیں، سلطنت ِرُوما کی تھیو کریسی میں دَرحقیقت کوئی رُوحانی بنیاد موجود نہیں تھی، محض پوپ کے ذاتی تصورات کو معصوم قرار دے کر اُن کو مذہبی حکم کے طور پر نافذ کیا جاتا تھا اَور اِس سے لوگوں کے حقوق پامال ہوتے تھے اِس کا ردِ عمل یہ ہوا کہ جمہوریت والوں نے مذہب کا جوا بالکل اُتار پھینکا اَور تصوریہ قائم ہوا کہ حاکمیت اَعلیٰ خود عوام کو حاصل ہے۔ جمہوریت دَر اَصل اَنگریزی لفظ ڈیموکریسی (Democracy)کا ترجمہ ہے جس کے معنی ہیںعوام کی حاکمیت، اِس طرح نظریہ یہ وجود میں آیا کہ عوام خود حاکم ہیں پھر عوام کے خود حاکم ہونے کے تصور کو سیکولراِزم کے ساتھ وابستہ کرنا پڑا جس کا مطلب یہ تھا کہ ریاست کے معاملات میں کسی دین اَور مذہب کی پابندی نہیں ہے۔ مذہب اِنسانوں کا ذاتی معاملہ ہے جو اُن کی اِنفرادی زندگی سے متعلق ہے لیکن سرکار کے معاملات سے اِس کا کوئی سرو کار نہیں ہے۔ کیونکہ عوام جب خود حاکم ہیں اَور کسی دُوسری اَتھارٹی کے پابند نہیں ہیں تو اِس کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ وہ حکومت کے معاملات میں کسی اِلٰہی قانون کے بھی پابند نہیں بلکہ وہ خود فیصلہ کریں گے کہ کیا چیز اَچھی اَور کیا چیز بری ہے ؟ لہٰذا آزاد جمہوریت یا لبرل ڈیموکریسی سیکولراِزم کے بغیر نہیں چل سکتی۔