ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
اُٹھتا وہاں سے ہے اَور پہنچتا یہاں بھی ہے، اِس کے اُوپر کوئی روک عائد نہیں ہوتی۔ وجہ یہ ہے کہ کوئی بنیاد نہیں ہے جس کی بناء پر روکا جائے کیونکہ جب عوام کی حاکمیت ٹھہری اَور وہ اِس کو پسند کرتے ہیں تو اِسے ناجائز کہنے کی کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ غرض کوئی بد سے بد تر کام ایسا نہیں ہے جو جمہوریت کے سائے میںجائز قرار نہ دیا جا رہا ہو۔ جمہوریت اَور خاندانی نظام ،ایڈز کی وباء : اِس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے یعنی خاندان کے جو رشتے ہوتے ہیں کہ یہ شوہر ہے، یہ بیوی ہے، یہ باپ ہے، یہ اَولاد ہے، اُن کے باہمی رِشتے ختم ہو چکے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے طورپر'' ایڈز'' کی بیماری مسلط کردی ہے۔ یہ بیماری پیدا کیسے ہوئی ؟ اِس بات پر سب کا اِتفاق ہے کہ یہ بیماری دو چیزوں سے پیدا ہوئی ہے، ایک ہم جنس پرستی، دُوسرے ایک شخص کا کئی عورتوں سے یا ایک عورت کا کئی مردوں سے جنسی تعلق قائم کرنا۔ لیکن بیماری کے نتیجے میں بجائے اِس کے کہ فحاشی میں کمی آتی اَور عفت و عصمت کی طرف لوگوں کا رُجحان ہوتا، فحاشی میں اَور اِضافہ ہو گیا اِس لیے کہ ایڈز کی بیماری کو روکنے کے لیے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ناجائز جنسی تعلقات قائم نہ کرو۔ لہٰذا یہ کہتے ہیں کہ اِن حفاظتی تدابیر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرو اَور اِن تدابیر کے لیے باقاعدہ تعلیمی کورس منعقد ہوتے ہیں، ٹیلویژن پر عملی تربیت دی جاتی ہے کوئی تعلیم گاہ ایسی نہیں ہے جس میں جنسی تعلیم کا اِنتظام نہ کیا گیا ہو، بات کہتے ہوئے بھی حجاب معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت ِ حال بتانے کے لیے عرض کر دیتا ہو ں کہ یونیورسٹی اَور کالجوں میں جہاں غیر شادی شدہ لڑکے اَور لڑکیاں پڑھتے ہیں وہاں ایڈز کی روک تھام کے لیے یہ اِنتظام کیا گیا ہے کہ ہر یونیورسٹی کے غسل خانہ میں وہ خود کار مشینیں لگائی ہوئی ہیں جن کے اَندر پیسے ڈال کر'' کنڈوم'' نکل آتا ہے تاکہ بوقت ِ ضرورت ہر آدمی وہ کنڈوم اِستعمال کر سکے۔ اِس طرح جو بیماری دَر حقیقت اِس جنسی بے راہ روی سے پیدا ہوئی تھی اُس کی روک تھام کی جو تدابیر اِختیار کی گئیں اُن سے جنسی بے راہ روی کو اَورفروغ مِلا غرض کوئی اَخلاقی قدرسالم نہیں رہی۔