ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
فلاں چیز بری ہے بلکہ اَب تازہ ترین فلسفہ یہ ہے کہ خیر اَور شر کوئی چیز نہیں ہے، دُنیا میں ساری چیزیں اِضافی ہیں۔ ایک زمانے میں ایک چیز خیر ہے اَور دُوسرے زمانے میں وہ شر ہے اَور ایک مُلک میں خیر ہے دُوسرے مُلک میں شر ہے، ایک ماحول میں خیر ہے اَور دُوسرے ماحول میں شر ہے، یہ اِضافی چیزیں ہیں اِن کا کوئی اَپنا حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ خیر و شر کے پیمانے ماحول کے زیر اَثر متعین ہوتے ہیں۔ اِسی کا نتیجہ ہے کہ جب سے سیکولر جمہوریت کا رواج ہوا ہے اُسی وقت سے مغرب میں اَخلاقی بے راہ روی اَور جنسی بے راہ روِی کا طوفان اُٹھا ہے۔ جب تک جمہوریت وجود میں نہیں آئی تھی بلکہ یا تو بادشاہتیں تھیں یا عیسائی تھیو کریسی تھی تو اُس وقت تک اَخلاقی بے راہ روی کا وہ طوفان نہیں اُٹھا تھا جو جمہوریت کے بر سرِ کار ہونے بعد یورپ میں اُٹھا ہے۔ حالت یہ ہے کہ کوئی بد سے بد تر کام ایسا نہیں ہے جس کو آج آزادی کے نام پر سند ِجواز نہ دی گئی ہو یا کم اَزکم اُس کا مطالبہ نہ کیا جا رہا ہو کیونکہ جمہوریت نہ کسی اَخلاقی قدر کی پابند ہے، نہ کسی کی آسمانی ہدایت سے فیض یاب ہے بلکہ عوام کی اَپنی مرضی اَور خواہش پر سا را دَارو مدار ہے۔ جمہوریت اَور ہم جنس پرستی : اِسی کا نتیجہ ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ہم جنس پرستی کو سند ِجواز دی اَور اِس کے جواز کا قانون تالیوں کی گونج میں منظور کیا اَور اِس کے بعد یورپ کے بعض ممالک میں ہم جنس شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ جس وقت برطانیہ کی پارلیمنٹ میں یہ بل پیش ہوا تو سب لوگ تو اِس کے حامی نہیں تھے اِختلاف ِ رائے موجود تھا، اِس اختلاف ِ رائے کو دُور کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی اُس کمیٹی کو '' Wolfenden Committee'' کہا جاتا ہے۔ وہ کمیٹی اِس لیے بنائی گئی تھی کہ وہ اِس معاملہ میں رائے عامہ کا اَندازہ لگائے اَور جو مفکرین اَور دَانشور ہیں اُن سے تبادلہ خیال کرے اَور بالآخر یہ رپورٹ پیش کرے کہ اَیوان رائے عامہ کا جائزہ لینے کے بعد اَور تمام متعلقہ حلقوں سے گفتگو کرنے کے بعد کس نتیجہ پر پہنچے۔