ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
اَولاد کی تعلیم و تربیت ( حضرت مولانا محمد عاشق اِلٰہی صاحب بلند شہری ) بہت سے لوگوں کو اَولاد کی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اَور اَولاد گلی کوچوں میں بھٹکتی پھرتی ہے بچوں کے لیے پیٹ کی روٹی اَور تن کے کپڑوں کا تو اِنتظام کر دیتے ہیں لیکن اُن کی باطنی پرورش یعنی اَخلاقی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے۔ اِن میں وہ لوگ بھی ہیں جن کے اپنے ماں باپ نے اِن کا ناس کھویا تھا اِنہیں پتہ ہی نہیں کہ تربیت کیا چیز ہے اَور بچوں کو کیا سکھائیں اَور کیا سمجھائیں ۔اِس بڑی غفلت میں اُن لوگوں کا بھی حصہ ہے جو خود تو نمازی ہیں اَور کچھ اَخلاق و آداب سے بھی واقف ہیں لیکن ملازمت یا تجارت میں اِس طرح اپنے آپ کو پھنسا دیا ہے کہ بچوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے اُن کے پاس گویا وقت ہی نہیں حالانکہ زیادہ کمانے کی ضرورت اَولاد ہی کے لیے ہوتی ہے ،جب زیادہ کمانے کی وجہ سے خود اَولاد ہی کے اعمال و اَخلاق کا خون ہو جائے تو ایسا کمانا کس کام کا ؟ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو اَچھا خاصا علم بھی رکھتے ہیں مصلح بھی ہیں اَور مرشد بھی ہیں ،دُنیا بھر کے لوگوں کو راہ دِکھاتے ہیں، سفر پر سفر کرتے رہتے ہیں، کبھی یہاں وعظ کہا کبھی وہاں تقریر کی، کبھی کوئی رسالہ لکھا کبھی کوئی کتاب تالیف کی لیکن اَولاد کی اِصلاح سے بالکل غافل ہیں حالانکہ اپنے گھر کی خبر لینا سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اَولاد کی جانب سے جب چند سال غفلت برت لیتے ہیں اَور اُن کی عمر دس بارہ سال ہو جاتی ہے تو اَب اُن کو صحیح راہ پر لگانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اَور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں توجہ تو ہے لیکن وہ اَولاد کو حقیقی علم سے بالکل محروم رکھتے ہیں یعنی اَولاد کو اِسلام نہیں سکھاتے۔ بیس بیس سال کی اَولاد ہو جاتی ہے جنہیں کلمہ تک یاد نہیں ہوتا، یہ لوگ نہ نماز جانتے ہیں نہ اُس کے فرائض نہ واجبات جانیں، نہ اِسلام کے عقائد پہچانیں، نہ