ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
خصوصًا سر کھول کر گھر میں پھر نے کا عورتوں کو زیادہ مرض ہے۔ اِن کافر عورتوں کے آنے کے وقت تمام سر کو چھپانا چاہیے کہ بال تک بھی اُن کو نظر نہ آئیں۔ اِس طرف عورتوں کو بالکل توجہ نہیں جس کا سبب یہ ہے کہ اُن کو اَحکام کی طرف توجہ کم ہے۔ میموں (ڈاکٹرنیوں )سے تو اُن کو کبھی کبھار واسطہ پڑتا ہے مگر اَکثر بھنگنوں، چماروں یا کُنجڑنوں سے بہت واسطہ پڑتا ہے۔ یہ عورتیں رات دِن گھر میں گھسی رہتی ہیں اِن سے بہت کم اِحتیاط کی جاتی ہے۔ غیر مسلم ڈاکٹر عورتوں سے علاج کرانا : آج کل جابجا شفا خانے کھلے ہوئے ہیں جن میں زَنانے شفاخانے بھی ہیں۔ ہندوستانی عورتیں وہاں جا کر میموںسے علاج کراتیں ہیں۔ اِس ذریعہ سے اُن کے پاس آمدو رفت ہوتی ہے اَور جو زیادہ وسعت والے ہیں وہ میموں کو اَپنے گھروں میں بلاتے ہیں لوگ اِس میں اِحتیاط نہیں کرتے اَور یوں سمجھتے ہیں کہ یہ عورتیں ہیں اِن سے کیا اِحتیاط اِس لیے بے تکلف میموں سے علاج کراتے ہیں۔ حالانکہ میمیں مردوں سے زیادہ قابل ِ اِحتیاط ہیں کیونکہ مردوں سے تو مردوں کوسابقہ پڑتا ہے اَور میموں کو عورتوں سے سابقہ پڑتا ہے اَور اِن میں تأثر کا مادّہ زیادہ ہے۔ یہ ہر نئی چیز سے بہت جلدی متأثر ہوتی ہیں پھر میموں کے طرزِ تقریر میں ایک خاص بات ہوتی ہے جو (عام) ہندوستانی عورتوں میں نہیں ہوتی اِس لیے وہ میموں کی باتوں سے بہت جلد متأثر ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ ایک دیندار عورت نے اِس حقیقت کو خوب سمجھا اُس کی آنکھ میں کچھ نقص (مرض) تھا ڈاکٹر کو آنکھ دِکھانے سے وہ اِنکار کرتی تھی اَور یہ کہتی تھی کہ آنکھ ہی کی تو شرم ہے،جب غیر مرد کے سامنے آنکھ ہوگئی پھر پردہ کاہے کا رہا۔ پھر اُس نے ایک میم کو اَپنی آنکھ دِکھلائی اُس نے دیکھ کر کہا میں اِس علاج میں ماہر نہیں ہوں تمہیں ڈاکٹر صاحب کو آنکھ دِکھلانی چاہیے، اُس نے ڈاکٹر کو دِکھلانے سے اِنکار کیا۔ اِس پر صاحبہ نے ایسی تقریر کی کہ اُن کی رائے فورًا بدل گئی اَور ڈاکٹر صاحب کو دِکھلانے کو تیار ہوگئیں پھر اُن کو شبہ ہوا اَور عہد کیا کہ اَب ساری عمر بھر اِن میموں کا منہ کبھی نہ دیکھوں گی کہ اِس ساحرہ (جادُو گرنی)