ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
پر دو کروڑ آٹھ لاکھ۔ زمانہ مابعد میں مامون رشید کا زمانہ زیادتی کا محاصل کے لحاظ سے ممتاز مانا جاتا ہے مگر اُن کے زمانے میں بھی عراق سے پانچ کروڑ اَڑتالیس لاکھ سے زیادہ تحصیل نہ ہوئی۔ شاہانِ جاہلیت کی جس قدر ذاتی اَملاک تھیں مثلاً شاہ ِاِیران کی اَملاک اِن سب کو آپ نے بیت المال میں داخل کر لیا اَور اُس کا مصرف یہ تھا کہ جس کسی کو جاگیر دیتے یا شہیدوں کے بال بچوں کا وظیفہ مقرر کرتے تو وہ اِسی مدسے ہوتا تھا۔ دریا پر عُمَّال کو مقرر کیا تاکہ تجارتی چیزوں کاخمس لیا جائے۔گزرگاہوں پر عشر لینے والوں کو مقرر کیا تاکہ مسلمانوں سے اَموالِ تجارت کی زکوة اَور حربی کافروں سے عشر لیا جائے، جہاں کچھ لوگوں کا مجمع ہوتا تھا اُس کی نگرانی فرماتے تھے کہ کوئی فتنہ برپا نہ ہو۔ شاعروں کو سخت ممانعت کردی گئی تھی کہ کسی کی ہجو نہ کہیں۔ ایک شاعر نے زبرقان کی ہجوکی، آپ نے اُس شاعر کے لیے حکم دیا کہ تہہ خانہ میں ڈال دیا جائے،بالآخر حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اَور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی سفارش سے چھوڑا مگر اُس سے عہد لے لیا کہ اَب کبھی ایسا نہ کرنا۔ بڑی سخت تاکید کی تھی کہ کسی غیر مسلم کو مسلمانوں پر حکومت نہ دی جائے ۔جب حضرت اَبو موسٰی (حاکم بصرہ) اَپنے میر منشی کے ساتھ آئے اَور اَپنے دفتر کا معائنہ کرایا تو آپ اُن کے میر منشی کے کام سے خوش ہوئے اَور ایک روز فرمایا کہ تمہارا میر منشی کہاں ہے ذرا یہ تحریر مسجد میں پڑھ کر سنا دے اُس وقت حضرت اَبو موسٰی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اَمیر المومنین وہ منشی تو نصرانی ہے مسجد میں نہیں جا سکتا ،یہ سن کر آپ نے اَبو موسٰی کو بہت ڈانٹا اَور فرمایا کہ یہ لوگ رشوت کو حلال سمجھتے ہیں خدا نے اِن کو خائن قرار دیا ہے اَور تم اِن کو اَمین سمجھتے ہو، اَب میں اگر ایسا سنوں گا تو سزا دُوں گا۔ جب کسی کو کسی صوبہ کی حکومت (یعنی گورنری) پر مقرر کرتے تو اُس کی اَمانت اَور عدالت کو خوب جانچ لیتے اَور پھر برابر اُس کے کام کی نگرانی فرمایا کرتے اَور رعایا کو حکم تھا کہ میرے حکام سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچے تو بے خوف و خطر مجھے اِطلاع دو۔ اَپنے حکام کی ذرا ذرا سی بات پر سخت گرفت کرتے اَور مقرر کرتے وقت ایک پروانہ لکھ دیتے جس میں حسب ِ ذیل ہدایات ہوتیں :