ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
سیکولر نظام ، زِنا و فحاشی : اَور کمال کی بات یہ ہے جو اِنتہائی حیرتناک اَور عبرتناک بھی ہے کہ جس معاشرے میں زِنا اَور بدکاری اِتنی سستی اَور آسان ہے کسی بھی عورت کے ساتھ ناجائز تعلق قائم کرنے میں کوئی رُکاوٹ نہیں ہے، بر سرِ عام طوائفوں کا سلسلہ بے روک ٹوک جاری ہے بعض ملکوں میں قانونًا عصمت فروشی کی اِجازت ہے، عصمت فروشی کی باقاعدہ کمپنیاں بنی ہوئی ہیں اِس کے باوجود اَمریکہ میں زِنا بالجبر کے جتنے واقعات ہوتے ہیں دُنیا میں کہیں نہیں ہوتے۔ جہاں رضامندی کے ساتھ یہ عمل کرنا اِتنا آسان ہے وہاں زِنا بالجبر کی شرح تمام دُنیا سے زیادہ ہے۔ تعددِ اَزواج منع ہے جسے ایک گالی بنادیا گیا ہے ایک سے زیادہ شادی کر لیں تو قید ہو جائیں اَور دس فحاش عورتوں کے ساتھ تعلق قائم کر لیں تو اِجازت ہے اِس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ سارا نتیجہ عوام کی بے لگام حاکمیت کے اُس تصور کا ہے جو سیکولر جمہوریت نے پیدا کی ہے۔ عوام کو حاکمیت کا دھوکہ : عوام کی حاکمیت کا دُوسرا پہلو یہ ہے کہ دَر حقیقت یہ لفظ بھی ایک بہت بڑا دھوکہ ہے اِس لفظ کے ذریعے عوام کو خوش کر دیا گیا ہے کہ تم حاکم بن گئے لیکن حقیقت میں ہوتا یہ ہے کہ حکومت میں عوام کی شرکت محض ایک تخیلاتی اَور تصوراتی حیثیت رکھتی ہے، عملًا اَکثر جگہوں پر عوام کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ حکومت کیا کر رہی ہے ؟ اِس لیے جو لوگ جمہوریت کے حامی ہیں وہ سب اِس بات پر متفق ہیں کہ جمہوریت کی کامیابی اُسی صورت میں ہو سکتی ہے جب عوام میں تعلیم کا معیار بلند ہو اُن میں سیاسی شعور ہو اَور وہ اَپنے لیے بہتر حکمرانوں اَور بہتر نظام کا اِنتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ لیکن اگر تعلیم کا معیار گرا ہوا ہے تو اُس وقت عوام کی حکومت میں شرکت حقیقت میں نہیں ہوتی بلکہ لیڈر اُن کو گمراہ کرتے ہیں ،جو نعرہ لیڈروں نے لگادیا اُس پر چل پڑے۔ لہٰذا جن ملکوں میں تعلیم کا معیار بلند ہے وہاں پر جمہوریت نسبتًا زیادہ مستحکم ہے اَور جن ملکوں میں تعلیم کا معیار گرا ہوا ہے وہاں جمہوریت ایک دھوکہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔