ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
''عید'' اَور ''تہوار'' میں فرق : جہاں تک عربی لغت کا تعلق ہے عید اَور تہوار ایک ہی مفہوم کے دو نام ہیں یعنی جس کو تہوار کہا جاتا ہے اُسی کو عید بھی کہا جائے گا اَور حقیقت یہ ہے کہ عرب کے قومی مذاق نے بھی عید اَورتہوار میں کوئی خاص فرق نہیں کیا تھا۔ بقول حضرت سیّدنا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی جس طرح اِیران کے عجمی دو تہوار ''نو روز'' اَور'' مہر جان '' منایا کرتے تھے، مدینہ کے عرب بھی اِن دونوں تہواروں کے عادی ہو چکے تھے۔ اِیرانی اِن دونوںتہواروں کے لیے فارسی الفاظ ''نو روز'' اَور'' مہر جان'' اِستعمال کیا کرتے تھے۔ عربوں نے اِن کے لیے اَپنے یہاں کا ٹکسالی لفظ ''عید'' بولنا شروع کردیا تھا یعنی ایک ہی رُوح کے لیے دو قالب اَور ایک ہی منشاء کی تعبیر کے دو عنوان تھے ایک فارسی اَور ایک عربی۔ خاتم الانبیاء رحمةا للعالمین ۖ اللہ عز و جل کا آخری پیغام اَور نوعِ اِنسان کے لیے مکمل ترین تہذیب لے کر مدینہ طیبہ پہنچے تو آپ نے جس طرح قوم کی تمام عادتوں اَور اُن کے ہر ایک رسم و رواج پر تنقیدی نظر فرما کر اِصلاح فرمائی اِس رسم پر بھی تبصرہ فرما کر اِس کی اِصلاح فرمائی اَبْدَلَکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا مِّنْھَا یَوْمَ النَّحْرِ وَیَوْمَ الْفِطْرِ یعنی اللہ نے اِن دونوں کے بدلے میں دو تہوار دیے ہیں جو اِن دونوں سے بہتر ہیں ''عید قربانی'' اَور ''عید الفطر'' یعنی یہ حقیقت کہ خوشی کے دِن چھوٹے اَور بڑے سب ہی حسب ِ حیثیت عمدہ لباس پہنیں، بن سنور کر نکلیں، ملیں جلیں اَور خوشی منائیں اِس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترمیم کردی گئی کہ یہ دودِن ''نو روز'' اَور'' مہر جان'' نہیں بلکہ ''فطر'' اَور'' اَضحی '' کے دو دِن ہیں۔ کیوں : کیا معاذ اللہ قومی تعصب تھا جس نے یہ ترمیم ضروری قرار دی یا کوئی اِصلاحی مقصد تھا جس کے لیے یہ ترمیم ضروری سمجھی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ دین ِ فطرت یعنی اِسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ''فطرت'' کا گلا نہیں گھونٹتا اَلبتہ اِس کی کج روی اَور بے اِعتدالی دُور کردیتا ہے اِس کا یہ فعل یہاں بھی ہوا ہے یعنی ١ السُنن الکبری للبیھقی رقم الحدیث ٦١٢٣