ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2013 |
اكستان |
|
نبی اَکرم ۖنے ایک دُوسری حدیث میں اِرشاد فرمایا ہے کہ جو شخص قرض اَدا کئے بغیر مرجائے تو قیامت میں اُس کے بدلہ میں اُس کی نیکیاں حقدار کو دِلوائی جائیںگی۔ (الترغیب والترہیب، حدیث: ٢٨٠٢) اَور ایک روایت میں ہے کہ اِنسان کا نفس اپنے قرضہ کی وجہ سے معلق رہتا ہے یہاں تک کہ اُس کی اَدائیگی نہ کردی جائے۔ ( اَلترغیب والترہیب، حدیث: ٢٨١٥) اِس لیے اَولاً تو بلا ضرورت کسی سے قرض لینا نہیں چاہیے اَور اگر لے لیا ہے تو جلد اَدائیگی کی فکر کرنی چاہیے۔ دُنیا بس چند روزہ ہے : حَتّٰی ِذَا کَانَتِ الشَّمْسُ عَلٰی رُؤُوْسِ النَّخْلِ وَاَطْرَافِ الْحِیْطَانِ فَقَالَ اَمَا اِنَّہُ لَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیَا فِیْمَا مَضٰی مِنْہَا ِلَّا کَمَا بَقِیَ مِنْ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فِیْمَا مَضٰی مِنْہُ۔ ( سنن ترمذی رقم الحدیث ٢١٩١ ) اِس کے بعد جب آپ ۖ کو خطاب فرماتے ہوئے اِتنی دیرہوگئی کہ دُھوپ کھجور کے درختوں اَور دِیواروں پر پڑنے لگی تو آپ ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ خبردار ہوجاؤ دُنیا بس اَب اِتنی ہی بچی ہے جتنا یہ تمہارا دِن باقی ہے۔ نبی اَکرم ۖ نے ایک محسوس مثال سے دُنیا کی مابقیہ عمر کو بیان فرمایا ہے کہ اَب گویا کہ دن ڈوبا ہی چاہتا ہے اَور آفتابِ حیات لب ِغروب تک پہنچ چکا ہے۔ اَب اگر صرف اِس مختصر ترین وقت کے لیے ہی کوئی آدمی تگ ودو اَور جدو جہد کرے اَور اُس کے بعد جو ہمیشہ کی زندگی آنے والی ہے اُس سے اِعراض کرے اَور اُس کی فکر نہ کرے تو اُس سے بڑا بدنصیب اَور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اَفسوس ہے کہ آج ہمارے ذہن ودماغ پر یہی مختصر ترین دُنیا اَور اُس کی شان وشوکت حاوی ہوچکی ہے، مال ودولت، عہدہ و منصب اَور معمولی اَور عارضی شہرت وعزت کے حصول کے لیے ایک دُوسرے میں ہوڑ لگی ہوئی ہے اَور اَکثر لوگ اَنجام سے بے خبر ہوکر اِن ہی چند روزہ لذتوں کے حصول کے لیے سرگرداں نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتِ حال ایک مسلمان کے لیے اِنتہائی قابل ِتشویش ہے۔ ہمیں حضور ۖ (جن سے بڑھ کر ہمارا خیر خواہ کوئی نہیں ہوسکتا) کے مذکورہ بالا حکیمانہ