ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
چہ باید کرد : اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عربی کو عالمی زبان کا درجہ دینے کے لیے کام کا آغاز کہاں سے کیا جائے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ کام حکومتوں اَور خاص کر اِسلامی ملکوں کی حکومتوں کے کرنے کا ہے لیکن اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم جو با اِختیار لوگ نہیں ہیں، ہاتھ پر ہاتھ دَھرے منتظر فردا بنے بیٹھے رہیں اَور کچھ نہ کریں۔ قرآنِ کریم میں کم وبیش ڈیڑھ ہزار مادّے ہیں، اُن میں سے ایک ہزار کے قریب مادّے منتخب کرکے اُنہیں عالمی زبان کے ذخیرہ اَلفاظ کے طور پر مخصوص کردیا جائے پھر آسان اَور جامع قواعد کی مدد سے اُن مادّوں سے نئے اَلفاظ بنائے جائیں اَور اُنہیں سادہ نحوی قوانین کی رُو سے مرکبات اَور جملوں میں اِستعمال کے قابل بنایا جائے۔ قرآن کے مادّوں کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں، دُنیا بھر کے مسلمان اِن کے تلفظ اَور کسی حد تک مفہوم سے واقف ہیں، اِس طرح اگر قرآنی مادّوں پر مشتمل عربی کو عالمی زبان بنانے کا طریقہ اِختیار کیاگیا تو پہلے روز ہی اَسی، نوے بلکہ ایک عرب اِنسان اِس کی تائید کریں گے اَور دُنیا کے ہرخطے میں اِس کی دَرس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اَور صرف پانچ سال کے مختصر سے عرصہ میں کوئی مسلمان کسی اِسلامی ملک میں اَجنبیت محسوس نہیں کرے گا، ہر جگہ اَور ہر ملک میں عربی جاننے والے موجود ہوں گے اَور جو مسلمان جہاںجائے گا عربی کی مدد سے اَپنا مدعا بیان کرسکے گا اَور جو کتاب جہاں شائع ہوگی دُنیا بھر کے مسلمان اُسے پڑھ سکیں گے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ عربی مدارس کے اَساتذہ کرام آپس میں مشورہ کرکے پہلے قرآن ِکریم کے مادّوں کا جائزہ لیں، روزمرہ کی عام بول چال میں کام آنے والے مادّوں کو اَلگ کریں اَور اُن سے مشتقات بنانے کے قواعد مرتب فرمائیں، اِس کے بعد پہلے عربی مدارس میں اِس آسان اَور بنیادی بول چال کی عربی کو رائج کریں تاکہ فارسی وغیرہ کی اِبتدائی کتابوں کی تدریس سے پہلے طلبہ کو