ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
بیان کیاگیا ہے جس کی مثال ''معبد'' اَور '' عبادت خانے'' کی ہے ، بوڈمر جس مفرد کی حمایت کرتا ہے اُس کا مفہوم یہ ہے کہ دو کلمات کو ملا کر ایک مفرد نہ بنایا جائے بلکہ دونوں کلمات کو اَلگ اَلگ مفرد حیثیت سے اِستعمال کیا جائے، مثال کے طور پر اُردو کا کلمہ '' اَمر'' ہے، یہ دَراصل دو کلموں '' ان'' اَور''مر'' سے مل کر بنا ہے، اِس لیے '' امر''( جاوبداں) ''بوڈمر'' کے خیال کے مطابق مفرد نہیں رہا، اِس کی تجویز یہ ہے کہ '' ان '' اَور'' مر'' دونوں کو اَلگ اَلگ رکھا جائے تاکہ دونوں اَلگ اَلگ مفرد رہیں۔ '' بوڈمر'' کی یہ تجویز عربی کے علاوہ دُوسری زبانوں کے پیش نظر درست ہے، اِس لیے کہ اِس نوعیت کے مفرد کلمات جو دَراصل مرکب ہیں، اَجنبی معلوم ہوتے ہیں اَور نو آموز کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں لیکن عربی میں اِس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ، اِس لیے عربی کو عالمی زبان کے طور پر پیش کرتے ہوئے ہم اِس تجویز کی تائید نہیں کرسکتے، عربی میں قواعد کے مطابق اِس قسم کے کلمات بنائے جاتے ہیں اَور یہ طریقہ اِختصار میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔ '' عبادت خانہ'' بوڈمر کی تجویز کے مطابق اچھا کلمہ ہے لیکن ہماری تجویز'' معبد'' کو اَپنانے کی ہے ،اِس لیے ع، ب ،د ، مادے کے پیش نظر ''معبد'' اَجنبی نہیں بلکہ اِسی سے اِسم ظرف کے قاعدے کے مطابق بنایاگیا ہے۔ دُوسری تجویز کہ ذخیرہ اَلفاظ کا مأخذلاطینی زبان ہو، ظاہر ہے کہ ہم اِس کی تائید نہیں کرسکتے، ہاں اگر صرف براعظم یورپ کے لیے اَور وہ بھی '' سلاد'' زبانیںبولنے والوں کو خارج کرکے باقی اَقوام کے لیے ایک مشترک زبان بنانا مقصود ہو تو یہ تجویز مفید ہوسکتی ہے لیکن عالمی زبان کے لیے یہ تجویز نہ صرف بے سود بلکہ حد درجہ مہلک اَور خطرناک ہے۔ تیسری تجویز کہ ذخیرئہ اَلفاظ ایک ہزار تک محدود ہو، کسی حد تک درست ہے لیکن عربی میں چونکہ قواعد کے مطابق نئے اَلفاظ بنائے جاسکتے ہیں اِس لیے عربی ذخیرہ الفاظ تین چار ہزار تک بڑھایا جاسکتا ہے اَلبتہ مادّوں کی تعداد کا محدود ہونا ضروری ہے۔ باقی تینوں تجویزیں معقول اَور قابل قبول ہیں اَور عربی میں اِن کی حیثیت ہے ؟ یہ بات ہماری گزشتہ معروضات سے واضح ہوجاتی ہے۔