ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
اَنابت و خشیت : اِس سال اِجتماع رائیونڈ کے موقع پر حضرت مفتی صاحب اَور حضرت مولانا عبیداللہ صاحب اَنور مدظلہم رائیونڈ گئے حضرت مفتی صاحب حضرت مولانا اِنعام الحسن صاحب اَمیر جماعت تبلیغ کے پاس تشریف لے گئے تو دیر تک مجلس پر سکوت کاعالم رہا اُس مجلس میں موجود سب حضرات اِسی کیفیت ِمراقبہ میں رہے بعض لوگ جوجماعت کا پرو گرام بنارہے تھے اِس کیفیت سے ایسے متاثر ہوئے کہ اپنا کام چھوڑ کر اِسی مراقبہ میں شامل ہو گئے۔ یہ واقعہ مجھے خود حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مدظلہم نے سنایا اَور یہ کہ یہ اَثرات حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کی قلبی حالت کی وجہ سے تھے۔ قرآنِ پاک سے تعلق و شغف : تقریبًا اَڑھائی سال قبل رمضان ١٣٩٨ھ /١٩٧٨ء میں رشید میاں سلمہ راولپنڈی حضرت مفتی صاحب سے ملنے گیا۔ مفتی صاحب بہت علیل اَور بے حد مصروف تھے نمازِ عشاء کے بعد تراویح میں خود تو شامل نہ ہو سکتے تھے مسجد جامعہ اِسلامیہ (قاری سعید الرحمن صاحب کے یہاں )قرآنِ پاک سنتے رہے۔ قاری سعید الرحمن صاحب کے پاس جامعہ اِسلامیہ میںقیام تھا نمازِ عشاء کے بعد تراویح میں تو شریک نہ ہو سکے مسجد کے برآمدے میں باہر بیٹھ کر نہایت اِنہماک سے قرآنِ پاک سنتے رہے اَور رِقت جیسی کیفیت دیر تک رہی۔ اُس وقت رشید میاں نے کوئی بات کرنی مناسب نہ سمجھی یہ بھی اُن کے ساتھ خاموش بیٹھا قرآنِ پاک سنتا رہا۔ خوش طبعی : حضرت مفتی صاحب کے مذکورۂ بالا حالات پڑھ کر یہ تصور قائم ہوگا کہ وہ ایک مصروف مفکر اَور علم و سیاست میں منہمک شخص ہوں گے یا تنہائی ملتی ہوگی تو عبادت میں مشغول ہوجاتے ہوں گے حالانکہ وہ اِن سب باتوں کے باوجود خوش طبع تھے ظریف الطبع لوگ بھی اُن کے پاس آتے اَور خوش کن باتوں سے محظوظ ہوتے لیکن ظرافت میں بھی علمیت ہوتی تھی۔