ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
سیرت خلفائے راشدین ( حضرت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی لکھنوی )خلیفہ رسول اللہ حضرت اَبوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کابیان : رسولِ خدا ۖ کی وفات کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں اَنصار کا مجمع ہوا تاکہ کسی خلیفہ کا تقرر کریں، وہ چاہتے تھے کہ ایک خلیفہ اَنصار میں سے ہو اَور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے مگر دو خلیفہ کا تقرر جس قدر باعث ِاِفتراق ہوتا ظاہر ہے لہٰذا حضرت اَبو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے نظم ِخلافت کو درست کرنے کو رسولِ خدا ۖ کی تدفین پر مقدم فرمایا اَور یہی ہونا بھی چاہیے تھا۔ ١ ١ اِس لیے کہ تجہیزو تکفین میں دیرہونے سے عام اَموات کی طرح (نعوذ باللہ) کسی قسم کی خرابی کے پیدا ہونے کا اَندیشہ نہ تھا اَلبتہ خلافت کااِنتظام بگڑ جاتا اَور کوئی ایسا شخص خلافت کے لیے منتخب ہوجاتا جس میں سیاسی قابلیت اَوررُوحانی قوت اِس درجہ کی نہ ہوتی تو اُس کی اِصلاح ناممکن تھی اَور جو فتنے اِرتداد وغیرہ کے پیش آئے اُن میں دین ِ اِسلام کا باقی رہ جانا بظاہر نا ممکن تھا، پھر ایک بات یہ بھی تھی کہ رسول اللہ ۖ کی تجہیز و تکفین جیسے مہتم بالشان کام کابغیر کسی خلیفہ کی سر کردگی کے اَنجام پانا ہزاروں خوبیوں کا سبب بنتا مثلًا نمازِ جنازہ کے بارے میں اِختلاف ہوتا کچھ لوگ نماز ِجنازہ مبارک حجرہ سے باہر لا کر پڑھنا چاہتے اَور اِس میں جو قیامت برپا ہوتی وہ ظاہر ہے کہ کوئی آپ ۖ کو دیکھنا چاہتا ،کوئی روتا، کوئی بے ہوش ہوجاتا، عورتوں اَور بچوں کا بھی ہجوم ہوتا اَور خدا جانے کیا کیا ہوتا۔ پھر مقام ِ دفن میں بھی اِختلاف ہوتا، کوئی کہتا کہ مکہ میں لے جا کر دفن کرو جو آپ ۖ کا مولد ہے یا ملک ِ شام جو حضرت خلیل کا مدفن ہے یا جنت البقیع میں جو مسلمانوں کا عام قبرستان ہے، اگر کوئی خلیفہ نہ ہوتا تو اِن اِختلافات کا فیصلہ کون کرتا، اَب چونکہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوگئے تھے لہٰذا اُنہوں نے فیصلہ کردیا کہ نماز حجرے کے اَندر ہوگی، دس دس آدمی اَندر جائیں اَور نماز پڑھ کر واپس آجائیں اَور تنہا تنہا نماز پڑھیں نبی کے جنازے پر کوئی اِمام نہیں بن سکتا وہ خود اِمام ہیں اَور مقام دفن کے لیے حضرت صدیق نے ایک حدیث پڑھی کہ اَنبیاء کی رُوح پاک جہاں قبض کی جاتی ہے وہیں اُن کی قبر مبارک ہونا چاہیے، لیجیے سب اِختلاف باآسانی رفع ہوگئے۔