ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
صکوک ِمضاربت شیخ وہبہ زُحیلی مدظلہ لکھتے ہیں : ''معاصر فقہاء نے سودی سندات کا متبادل تلاش کیا ہے جس کو صکوکِ مضاربت کہا جاتا ہے اَور جو شرکت ِمضاربت، مضاربت اَور شرکت ِ متناقصہ کی بنیاد پر قائم ہے۔ تمویل میں صکوک خریدنے والوں سے پہلے مال اکٹھا کیا جاتا ہے پھر صکوک جاری کرنے والا اِدارہ مضاربت پر عمل کرتا ہے اَور حاصل ہونے والے نفع کو دونوں طے شدہ شرح سے تقسیم کرتے ہیں اَور اگر نقصان ہوجائے تو وہ مال والوں پر یعنی حاملین ِ صکوک پر پڑتاہے۔ حاملین ِ صکوک کو متعین نفع نہیں ملتا، مضاربت کا رأس المال مساوی قیمت کے حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اَور یہ مالکیہ کے نزدیک مضاربت ِمشترکہ کی صورت میں جائز ہے۔ اِطفائے صکوک میں اِدارہ صکوک کی رقم کو شرکت ِ متناقصہ کی بنیاد پر تدریجًا یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے واپس کرتا ہے۔ '' صکوک ِ مضاربت کے تداول (تجارت) کا حکم : تداول اگر کاروباری منصوبے پر عمل کرنے سے پیشتر ہو تو جائز نہیں کیونکہ مال اَبھی تک نقدی کی صورت میں ہے اَور نقدی کا نقدی کے عوض تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ یا اُدھار میں جائز نہیں ہے، یہ بات عقد ِصرف کی بنیاد پر ہے۔ اَور اگر صکوک کا تداول منصوبے پر عمل شروع کرنے کے بعد ہو تو اگر اِدارے کے موجودات میں اَعیان (سامان واَشیائ) اَور منافع نقدی کی بہ نسبت زیادہ ہوں یعنی ٥١ فیصد یا اِس سے زیادہ ہوں تو جائز ہے جیسا کہ مجمع فقہ اِسلامی کے چوتھے اِجلاس میں طے پایا تھا۔ غرض جب مضاربت کے عوض میں تمام موجودات اَشیاء یا منافع کی شکل میں ہوں تو اُن کی بیع جائز ہے کیونکہ یہ نقد اَدائیگی کے عوض اَشیاء کی بیع ہے اَوراِس میں نہ سود ہے نہ غررہے۔اَور جب