ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
کیا تو میں اپنے دِل میں سوچا کرتا تھاکہ کیا میں اَپنے اَسلاف کی راہ سے ہٹ گیا ہوں حتی کہ ایک دِن میں نے اَپنے پیچھے سی آئی ڈی کی گاڑی دیکھی تو خدا کا شکر اَدا کیا۔ غزالاں تم تو واقف ہو ، کہو مجنوں کے مرنے کی دیوانہ مر گیا آخر کو ، ویرانے پہ کیا گذری رَحِمَہُ اللّٰہُ رَحْمَةً وَّاسِعَةً حضرت مفتی صاحب اَور جمہوریت : یورپ وغیرہ میں تو جمہوریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کثرت ِ رائے سے جو بھی فیصلہ ہوجائے اچھا ہو یا برا وہ نافذ العمل ہو۔ لیکن حضرت مفتی صاحب اَور ملک کے تمام علما ء کی مراد یہ کبھی بھی نہیں ہوئی (اَور نہ ہی کسی مسلمان کی یہ مراد ہو سکتی ہے) وہ جب لفظ ''جمہوریت '' اِستعمال کرتے تو اُن کی مراد ''اِسلامی جمہوریت'' ہوتی تھی یعنی وہ اَحکام جو شریعت ِ مطہرہ نے بتلا دیے ہیں رائے زَنی سے ہمیشہ بالا رہیں باقی اُمور پر رائے کا حق ہو اِس کا نام ''اِسلامی جمہوریت'' ہے۔ چونکہ جمہوریت کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ حکومت بادشاہت اَور آمریت میں تبدیل ہونے سے بچی رہتی ہے اَور حکام کی غلطیوں کا اِحتساب ہوتا رہتا ہے اِس لحاظ سے مفتی صاحب جمہوریت کے شدت سے حامی تھے اَور یہ اِسلامی نظام کے ساتھ مفید طرح جمع ہو سکتی ہے۔ اَساتذہ سے تعلق اَور غایت ِ اِحترام : حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ اِجلاس صد سالہ دارُالعلوم دیو بند میں شریک ہوئے فراغت کے بعد ہندوستان کے متعدد مقامات پر گئے مراد آبا میں مادرِ علمی جامعہ قاسمیہ بھی تشریف لے گئے وہاں ہر ہر دَرسگاہ میں کچھ کچھ دیر ٹھہرے اَور بتلاتے رہے کہ میں نے یہاں فلاں اُستاذ سے یہ کتاب پڑھی تھی۔ دارُالحدیث میں اُن سے عرض کیا گیا کہ طلبہ کو بخاری شریف کی حدیث پڑھادیں اُنہوں نے منظور کر لیا لیکن جب سبق پڑھانے لگے تو درمیان میں نہ بیٹھے اُس جگہ سے ہٹ کر بیٹھے