ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
وَقَوْلُ اِبْنِ حَجَرٍ اَیْ شِعْرًا مَّذْمُوْمًا لَیْسَ فِیْ مَحَلِّہ لِاَنَّہ لَا یُبَاحُ مُطْلَقًا۔ ( مرقاة شرح مشکوٰة جلد ٢ ص ٢٢٣)''اِبن ِحجر کا یہ کہنا کہ اِ س حدیث میں شعر سے شعر مذموم مراد ہے صحیح نہیں کیونکہ شعر مذموم کا پڑھنا تو بالکل جائز نہیں۔'' ملا علی قاری کے اِرشادِ گرامی کا مطلب یہ ہے کہ مذموم اَشعار کا پڑھنا تو سرے سے جائز ہی نہیں خواہ مسجد کے اَندر ہو یا مسجد سے باہر، اِس لیے یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے مذموم اَشعار پڑھنے کے لیے مسجد سے باہر جگہ بنائی تھی تاکہ لوگ وہاں جا کر مذموم اَشعار پڑھ لیا کریں۔ بہرحال اِس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ مسجد میں اُن اَشعار کا پڑھنا بھی ممنوع ہے جو شریعت کے مطابق ہوں اَور اُن میں کوئی خلافِ شرع مضمون بھی نہ ہو۔ '' ایک شبہ اَور اُس کا جواب '' اِس موقع پر یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ حضور ۖ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ وغیرہ کو مسجد نبوی میں شعر پڑھنے کا حکم فرمایا تھا اَور اُن کے حق میں دُعا فرمائی تھی تو اِس کا جواب یہ ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اَور کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چونکہ حضور ۖ کا حکم اَور خصوصی اِجازت تھی اِس لیے اُن کا مسجد میں شعر پڑھنا ناجائز نہ ہوگا بلکہ حضور ۖکے حکم کی اِتباع و پیروی کے باعث قابلِ اَجر و ثواب ہوگا۔ لیکن دُوسروں کے لیے حکم وہی ہوگا جو حضور ۖ کی مندرجہ بالا اَحادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں اَشعار نہ پڑھے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مسجد میں شعر پڑھنے کی اِجازت نہ دی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت اَبوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قسم دیکر یہ دریافت فرمایا کہ کیا تم نے حضور ۖسے یہ سنا ہے کہ اُنہوں نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا ہے کہ تم میری طرف سے کفار کو (اَشعار میں) جواب دو۔ (مرقاة جلد دوم ص ٢١٦)