ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
صکوک ِ اِجارہ کے ایک کیس کا مطالعہ حامد بن حسن اپنی کتاب ''صکوک الاجارہ'' میں لکھتے ہیں : بحرین کے مالیاتی اِدارے نے مملکت ِ بحرین کی نمائندگی کرتے ہوئے جولائی ٢٠٠٤ء سے جولائی ٢٠١٤ء تک یعنی دس سال کی مدت کے لیے ٤٠ ملین بحرینی دینا رکی مالیت کے صکوکِ اِجارہ جاری کیے۔ اِس منصوبے کے چند اہم نکات یہ ہیں : (١) اِجارے کے اِسلامی صکوک ایک مالی وسیلہ وذریعہ ہیں جو حکومتی جائیداد یعنی بحرین کے اِنٹر نیشنل ہوائی اَڈے کی زمین کے ایک حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ (٢) حکومت ِ بحرین اِس اِجراء کے تقاضوں کی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے وہ زمین سرمایہ کاری کرنے والے حاملین ِ صکوک کے نام کردے گی کیونکہ اُنہوں نے وہ زمین حکومت سے خریدلی ہے اَور پھر اُنہوںنے وہ زمین حکومت کو اُجرت پر دے دی ہے۔ حکومت ِ بحرین وعدہ دیتی ہے کہ صکوک کی مدت ختم ہونے پر وہ زمین کوحاملین ِصکوک سے اُسی قیمت فروخت کے عوض میں واپس خریدلے گی۔ اِن صکوک میں حکومت ِ بحرین نے غیر مشروط ضمانت دی کہ وہ مدت ختم ہونے پر فروخت شدہ زمین کو قیمت ِفروخت پر ہی واپس خرید لے گی۔ اِسی طرح اُس نے یہ ضمانت بھی دی ہے کہ وہ فروخت شدہ زمین کو پوری مدت (یعنی دس سال) تک متواتر اُجرت پر لیے رکھے گی اَوراُس کی اُجرت حاملین ِ صکوک پر تقسیم کی جائے گی۔ صکوک کا یہ اِجراء ٥ فروری ١٩٩٩ء کے فتوے کے تحت تھا جو رقابت ِشرعیہ(شرعی نگرانی) کے ایک بورڈ نے جاری کیا تھا یہ بورڈ شیخ عبداللہ بن منیع ڈاکٹر حسین حامد حسان شیخ عبدالحسین عصفور، شیخ عبدالستار اَبوغدہ اَور شیخ تقی عثمانی پر مشتمل تھا۔ لیکن پھر شیخ عبداللہ بن منیع نے اپنے فتوے سے رُجوع کر لیا اَور بینک راحجی(Rajehi) کے چوتھے فقہی اِجلاس میں اِعلان کیا کہ اُنہوںنے اپنے فتوے سے رُجوع کر لیا ہے اَور اَب اُن کی رائے یہ ہے کہ بیع وفا، بیع عینہ اَور عقد صوری اِن تین علتوں کے پائے جانے کی وجہ سے صکوک حرام ہیں