ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
قسط : ٥ ، آخری عربی زبان کی خصوصیات و اِمتیازات ( محترم جناب مضطر عباسی صاحب ) عربی کے مادّے کم و بیش نوے فیصد یک رُکنی (سہ حرفی) ہیں جنہیں لب ودہن کی ایک ہی جنبش سے اَدا کیا جاسکتا ہے، گو چینی کلمات میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے جیسے من(دَروازہ)یو(یہاں ہے) کو(مشق) رن یا جن(آدمی) دو (میں متکلم) شی ( ہے ، ہیں، ہوں) پو(قدم) جی (جاننا) جو(جانا)دو(راستہ)کن (دیکھنا) خو(خوش) چا(چائے) نا (کیوں)وغیرہ ،بعض کلمات دو رُکنی بھی ہیں جیسے ''لا ای ''(آنا)اَور'' ہوئی''(واپس ہونا) وغیرہ لیکن چینی میں کوئی کلمہ مادہ نہیں ہوتا جس سے نئے کلمات بن سکیں۔ باقی رہے عربی مشتقات سو اِن میں حروف کی زیادتی کے ساتھ ساتھ معانی و مطالب میں بھی اِضافہ ہوجاتا ہے، اِس لیے اِنہیں ثقیل یا اِختصار کے خلاف نہیں کہا جاسکتا اِس لیے کہ اِن کے تراجم میں دُوسری زبانوں کے مرکبات اِستعمال کیے جاتے ہیں جو بہرکیف اِختصار کے خلاف ہیں۔ بوڈمر(BODMER) نے '' اِسپرانتو'' پر تنقید کرتے ہوئے حروف کی علامت(٨) پر اِعتراض کیا ہے اَور لکھا ہے کہ یہ نشان یا علامت کفایت شعاری کے خلاف اَور زورنویسی میں حارج ہے، آپ غور فرمائیں کہ صرف ایک نشان(٨) جسے ''C'' پر لکھ''چ'' اَور''S'' پر لگاکر''شش'' کی آوازیں پیدا کی جاتی ہیں زبان پر غیر ضروری بوجھ بن جاتا ہے تو یہ درجنوں قسم کے زائد کلمات ،یہ علامات فاعل ومفعول ،یہ کلماتِ تعریف وتنکیر ،اِمدادی اَفعال اَور کلمات ِربط کی بھرمار اَور ایک ایک مفہوم کے لیے دو دو تین تین کلمات کے مرکبات کس قدر طوالت اَور بوجھ کا باعث ہوں گے۔ عربی اِن تمام زوائد اَور غیر ضروری کلمات سے پاک اَور خالی ہے، اِس میں مسنداِلیہ کا معرفہ ہونا کلمہ ربط کی ضرورت