ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
پردہ کے اَحکام ( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی ) عورتوں کے نام کا پردہ : عورتوں کو اپنی تصنیف میں نام لکھنے میں بھی آج کل بے پردگی ہے ہاں مرنے کے بعد ظاہر کردیا جائے تو مضائقہ نہیں۔ (وجہ یہ ہے کہ) عورت کے ساتھ مرد کو طبعی میلان ہوتا ہے اِس لیے بہت اِحتیاط کرنی چاہیے۔ اَزواجِ مطہرات جو اُمہات المومنین (تمام مسلمانوں کی مائیں) تھیں اَور ہمیشہ کے لیے سب پر حرام تھیں اُن کے لیے حکم ہے کہ لَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ یعنی نرم لہجہ سے بات نہ کرو شاید سننے والے کے دِل میں کوئی روگ پیدا ہو ۔اَب تو عورتیں غضب کرتی ہیں۔ (حسن العزیز) اَب تو یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ اَخباروں میں عورتوں کے اَشعار چھپتے ہیں اَور اَخیر میں اُن کا نام یا فلاں کی بیٹی یا فلاں کی بیوی بھی چھپتا ہے۔ میں نے یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک شخص میرے سامنے اَخبار پڑھ رہے تھے اُس میں ایک عورت کا پورا پتہ لکھا تھا کہ فلاں کی بیٹی فلاں شہر محلہ کی رہنے والی ، وہ کہنے لگے عورتوں کے نام اِس طرح اَخباروں میں چھاپنا گویا اُن کو سربازار بٹھادینا ہے۔ واقعی سچ ہے کہ اِس طرح تو گویا ظاہر کردینا ہے کہ جو کوئی ہم سے ملنا چاہے اِس پتہ پر چلا آئے اَور اگر کسی کی یہ نیت نہ بھی تھی توبدمعاشوں کو پتہ معلوم ہوجانے سے سہولت تو ہو جائے گی۔ میری رائے میں عورتوں کو اپنی تصانیف میں اپنا نام نہیں لکھنا چاہیے بلکہ صرف یہ کافی ہے کہ خدا کی ایک بندی ۔(حسن العزیز) عورتوں کو اِس طرح رکھنا چاہیے کہ محلہ والوں کو بھی خبرنہ ہو کہ اِس گھر میں کتنی عورتیں رہتی ہیں اَور ہیں بھی یا نہیں ،اِسی میں آبرو کی خیر ہے۔ عورت کے لیے یہی مناسب ہے کہ اُس کی خبر اپنے گھر والوں کے سوا کسی کو بھی نہ ہو۔ (حقوق البیت)