ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
جہاں اُستاذ مکرم مولانا سیّد فخرالدین صاحب رحمة اللہ علیہما بیٹھ کر سبق پڑھایا کرتے تھے، اَور یہ وجہ طلبہ کو بتلا بھی دی۔ یہ مثال آج کے دَور میں جو طلبۂ علوم دینیہ ہیں اُن کے لیے قابلِ تقلید سبق ہے۔ حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ سے تعلق : حضرت مفتی صاحب کے بارے میں یہ تو ہمارے علم میں نہیں کہ اُنہوں نے حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ سے سبقًا پورے سال حدیث کی کتابیں پڑھی ہوں۔ اُنہیں حضرت سے تعلق خود بخود تھا جس کی وجہ اُن کے اَساتذہ کا حضرت سے نہایت گہرا تعلق تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ جامعہ قاسمیہ کے نائب مہتمم صاحب کے خلاف طلبہ ہو گئے اَور بات اِتنی بڑھی کہ طلبہ نے پڑھائی چھوڑ دی اَور کتابیں داخل کر دیں اُس وقت حضرت مولانا عجب نور صاحب کی تدابیر غالب آئیں طلبہ نے کتابیں واپس لے لیں۔ اِس موقع پر آئندہ کی اِصلاح اَور اُمور ِ جامعہ پر غور کر نے کے لیے حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کو بلایا گیا۔ آپ نے سب طلبہ کے سامنے خطاب فرمایا۔ طلبہ پر اِس کا بہت اَثر ہوا۔ حضرت مدنی اپنے وعظ میں صرف صحیح اَحادیث بیان فرمایا کرتے تھے ایسی صورت میں حدیث شریف کے اُصول کے مطابق سننے والے طلبہ اُن حدیثوں کے شاگرد ہیں اَور وہ اُستاذ۔ اَور اُنہیں اِجازت ہوگی کہ وہ اِس ایک حدیث یا بہت سی حدیثوں کو اِس اُستاذ کی سند سے بیان کریں۔ یہ تو کم اَزکم وہ بات تھی جو میرے علم میں تھی لیکن ہو سکتا ہے کہ اِسی موقع پر یا کسی اَور موقع پر وہاں حضرت مدنی نے حدیث کا کوئی سبق بھی پڑھایا ہو تو پھر سلسلہ ہائے تلمذ مذکورہ صورت کے علاوہ اَور بھی ہوں گے کیونکہ مفتی صاحب خود کو حضرت کے خوشہ چینوں میں شمار کرتے تھے۔ اپنے دَورِ وزارت میں اُنہوں نے اِنٹرویو میں صرف حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ سے اِستفادہ کا ذکر کیا تھا۔ وہ اِنٹرویو اُس وقت طبع ہوا تھا لیکن حضرت مفتی صاحب کا تعلق حضرت مدنی سے اِتنا زیادہ تھا کہ وہ سب اَساتذہ سے تعلق پر غالب آگیا تھا۔