ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
اَصل طریقہ اَذان کا یہ ہے کہ اَذان جب دی جا رہی ہو تو (سننے والا) مؤذن کے کلمات دہراتا رہے وہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہے تو سننے والا بھی یہی کہے جب اَشْہَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ کہے تو سننے والا بھی یہی کہے اَور یہ بھی جائز ہے کہ '' وَاَنَا '' کہہ دے فقط کیونکہ رسول کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے ایسا بھی کیا ہے'' وَاَنَا'' کے معنی بھی یہی ہوگئے '' وَاَنَا '' کا ترجمہ ہے'' اَور میں بھی'' یعنی مؤذن تو گواہی دے ہی رہا ہے میں بھی دے رہا ہوں ۔ اِسی طرح اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ جب پڑھتا ہے مؤذن توبھی یہی کہا جائے گا وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ اَور فقط '' وَاَنَا '' بھی درست ہے ۔ اَذان اَور درُود شریف : اَچھا درُود شریف کا یہاں ذکر نہیں آتا کہ اَذان کے درمیان میں جواب دینے والا درود شریف پڑھے حالانکہ اِسم گرا می آرہا ہے اَور مسئلہ یہ ہے کہ جہاں نام آئے وہاں درُود پڑھا جائے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کہا جائے لیکن یہاں نہیں بتایا گیا کیونکہ اَذان (تسلسل سے بلا وقفہ کے)چل رہی ہے اُس کے درمیان میں( پڑھنے کا موقع ) نہیں( مل رہا)۔ مثال سے وضاحت : جیسے خطیب جب خطبہ دیتاہے تو اُس میں بھی وہ پڑھتا ہے اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ خطبہ میں پڑھتا ہے جمعہ کا تو پھر وہ خود ہی کہتا ہے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہ وَاَصْحَابِہ وَبَارَکَ وَسَلَمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا اَورسننے والوں کو (دورانِ خطبہ) یہ کہنا منع ہے کیونکہ بولنا منع ہے اُس وقت صرف(خطبہ) سننا بتایا گیا ہے۔ حنفی مسلک یہی ہے : تو اَصل جو بات ہے وہ وہیں جا کر رہتی ہے صحیح بات جو ہے دین کی وہ وہیں جا کر ٹھہرتی ہے