ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
مارچ ١٩٨٠ء میں جب دیوبند گئے تو حضرت مولانا محمد اَنور شاہ صاحب ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا محمود حسن رحمہم اللہ کے مزارات پر حاضری دی لیکن حضرت مدنی کے مزار مبارک پر بہت دیر ٹھہرے اَور روتے رہے۔ بقول صاحبزادہ محترم مولانا فضل الرحمن صاحب (ودیگر رُفقائ) کہ مفتی صاحب کو اُنہوں نے کبھی آنسوؤں سے روتے نہ دیکھا تھا سوائے اِس موقع کے جب وہ حضرت مدنی کے مزار مبارک پر گئے۔ ١٩٧٥ء میں حضرت والد محترم رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد مفتی صاحب میرے پاس تعزیت کے لیے تشریف لائے اِس دفعہ تصوف کے موضوع پر گفتگو ہوتی رہی۔ میں نے دریافت کیا کہ جناب کو آخری مراقبہ کیا تعلیم فرما یا گیا ہے ۔فرمایا : '' فَاِنَّہ یَرَاکَ '' میں نے عرض کیا کہ حضرت مدنی کے یہاں '' اَنَّ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَانَّکَ تَرَاہُ '' آخری تعلیم تھی اَور حضرت گنگوہی رحمةاللہ علیہ کے یہاں اِس سے پہلے سالک کو اِجازت نہیں دی جاتی تھی یہی طریقہ حضرت مدنی نے بھی اَپنایا۔ اِس کے بعد میں نے ''نقش ِحیات'' میں سے یہ حصہ دِکھلایا جسے بہت دیر تک مطالعہ فرماتے رہے۔ حضرت مفتی صاحب کے پاس حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کی اِسی (اِحسان کے) موضوع پر تقاریر کی صاف آواز میں چند ٹیپیں تھیں۔ وہ اُنہیں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ ایک دفعہ کہیں سفر پر تشریف لے گئے وہاں اپنی اٹیچی میں دیکھا تو ایک ٹیپ کم تھی فورًا گھر فون کیا کہ وہ ٹیپ تلاش کریں پھر دوبارہ فون کر کے معلوم کیا تو اہل ِ خانہ نے بتلایا کہ وہ آپ کے ٹیپ ریکارڈر میں لگی رہ گئی تھی۔ مفتی صاحب نے کہا کہ اِسے نکال کر محفوظ رکھیںاَور اِسے نہ چلائیں اَور نہ کسی کو ٹیپ کرنے کے لیے دیں۔ مولانا فضل الرحمن صاحب نے یہ بھی بتلایا کہ حضرت مفتی صاحب گھر میں بعض دفعہ کئی کئی بار یہ تقاریر سنا کرتے تھے (غالبًا ایسا موقع عبدالخیل ہی میں ملتا ہوگا)۔ فضل الرحمن صاحب سے مخاطب ہو کر حضرت مدنی کی عالمانہ شان کی طرف توجہ دلاتے تھے کہ عالم کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ بیان میں کوئی گوشہ نہیں چھوڑتا اَور موضوع کے ہر نکتہ پر بحث کرتا ہے یہ بات حضرت کی تقریر میں بدرجۂ اَتم موجود ہے۔