ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2012 |
اكستان |
|
ایک دفعہ فرمانے لگے کہ گھر میں ایک رشتہ دار نے ''چائے پیجیے'' کے بجائے ''چائے کھائیے'' کہہ دیا اِس پر دُوسرے رشتہ دار نے کہا کہ چائے کے لیے پینا ہی بولاجاتا ہے کیونکہ وہ پی جاتی ہے کھائی نہیں جاتی۔دُوسرے صاحب نے جواب ضرور دیا لیکن بات بے وزن رہی۔ مفتی صاحب گھر میں بیٹھے یہ گفتگو سن رہے تھے۔ اُنہوں نے خود ہی مفتی صاحب سے رُجوع کیا۔ مفتی صاحب نے اُس غریب کی وکالت کی جس نے چائے کے لیے کھانے کا لفظ اِستعمال کیا تھا اَور کئی ایک دلیلیں دیں مثلًا ''شراب '' پی جاتی ہے کھائی نہیں جاتی لیکن فارسی میں شراب نوش کو ''مے خوار'' شراب کھانے والا کہا جاتا ہے۔ اَور قرآنِ پاک میں پانی کے لیے بجائے لفظِ '' شُرِبْ ''کے '' طَعَامْ '' اِستعمال فرمایا گیا ہے۔دُوسرے پارے کے آخر میں یہ آیت آئی ہے فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہ مِنِّیْ اِس طرح اُس عزیز کی نجات ہوئی جو جواب دینے سے قاصر رہ گیا تھا۔ مفتی صاحب کو اَسلاف کے ایسے لطیفے بہت پسند تھے جن میں دِقت ِنظر ہو۔ نکتہ رسی اَور نکتہ سنجی اُن کا مزاج تھا ۔ایک دفعہ فرمانے لگے کہ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب سندھی رحمة اللہ علیہ چمچے سے کھا رہے تھے ایک شخص نے اُن سے کہا کہ ہاتھ سے کھانا سنت ہے۔ مولانا سندھی نے جواب دیا کہ ''کیا میں پاؤں سے کھا رہا ہوں۔ '' اِس قسم کی بہت سی باتیں بہت سے اَحباب بھی لکھیں گے میں اپنے اِس بے ربط مضمون کو اُن کے آخری خواب آخری سفر اَور سفرِ آخرت کے ذکر پر ختم کرتا ہوں۔ حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ کو خواب میں جنابِ رسالتمآب ۖ کی زیارت نصیب ہوئی کہ'' آنحضرت ۖ اپنی قبر مبارک میں لیٹے ہوئے ہیں اَور مفتی صاحب بِلا حائل بہت واضح طرح زیارت سے مشرف ہو رہے ہیں۔ ''کراچی میں مولانا محمد صاحب بنوری سے فرمایا کہ