ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
اِنَّ اللّٰہَ حَجَبَ التَّوْبَةَ عَنْ صَاحِبِ کُلِّ بِدْعَةٍ۔ (شعب الایمان ٦٠٧) ''بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر بدعتی شخص کو توبہ کی توفیق سے محروم کر دیا ہے۔'' اِن اِرشاداتِ عالیہ کی بنیاد پر حضرات صحابہ ث حد درجہ محتاط ہوگئے تھے اَور اُن میں کا ہر شخص ہر معاملہ میں اِس بات پر گہری نظر رکھتا تھا کہ کہیں اُمت میں کوئی بدعت جاری نہ ہوجائے چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعود صمسجد نبوی میں تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے جن میں ایک شخص پکار کر کہتا ہے کہ سو مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ پڑھو تو سب لوگ زور زور سے تکبیر کہنے لگتے ہیں پھر وہ شخص پکارتا ہے کہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھو تو سب لوگ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھنے لگتے ہیں اِسی طرح وہ درود پڑھنے کو کہتاہے تو سب لوگ درود پڑھنے لگتے ہیں، یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عبد اللہ بن مسعود ص نے فرمایا کہ کیا تم لوگ نبی اَکرم ۖاَور اُن کے صحابہث سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو؟ دَر اصل تم ایک بڑی بدعت کے مرتکب ہورہے ہو کیا تم حضرات ِصحابہث کے علم پر فضیلت رکھتے ہو؟ (اَحکام الاحکام ٥٢١ بحوالہ راہِ سنت ص١٢٤) یعنی اِس طرح مسجد میں مل کر تکبیر وتہلیل کے نام پر شور مچانے کا عمل دَورِ نبوت اَور دَورِ صحابہ ث سے ثابت نہیں ہے اِس پر نکیر کی وجہ یہی تھی کہ کہیں یہ مخصوص ہیئت ہی بعد میں خصوصیت کے ساتھ موجب ِثواب نہ سمجھ لی جائے۔ اِسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودصنے جب یہ دیکھا کہ اَکثر ائمہ نماز کے بعد عموماً دائیں طرف رُخ کرکے بیٹھنے کا اہتمام کرتے ہیں تو آپ نے محسوس کیا کہ کہیں یہ عمل بعد میں لازم نہ سمجھ لیا جائے اِس لیے آپ نے اِرشاد فرمایا : لَایَجْعَلْ أَحَدُکُمْ لِلشَّیْطَانِ شَیْئًا مِّنْ صَلَا تِہ یَرٰی أَنَّ حَقًّا عَلَیْہِ أَنْ لاَ یَنْصَرِفَ ِلَّا عَنْ یَّمِیْنِہ، لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ا کَثِیْرًا یَنْصَرِفُ عَنْ یَسَارِہ۔ ''تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز کا کچھ حصہ شیطان کے حوالہ نہ کرے یعنی یہ نہ سمجھے کہ اِس پر دائیں طرف رُخ کرکے بیٹھنا لازم ہے اِس لیے کہ میں نے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کو بہت مرتبہ بائیں طرف کو رُخ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔''