ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2011 |
اكستان |
|
بہرحال یہ حدیث ہے اِس لیے علماء کی رائے اَور قیاس پر مقدم ہوگی اَور حضرت سعید بن المسیب کی روایت سنن سعید بن منصور میں ہے پھر اُنہوں نے اِس پر اِجماعِ صحابہ تحریر کیاہے ۔ (المُغنی ص ٧٩٨ ج ہفتم ) اَور اِس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کی دیت نصف سے زیادہ نہ ہونے پر صحابہ کرام کا اِجماع ہے اِس میں کسی صحابی کا اِختلاف نہیں۔ کتب ِحدیث میں جناب رسول اللہ ۖ سے بھی روایات ہیں حضرت معاذ بن جبل سے بیہقی میںاَور عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ نسائی میںاَور اِن روایات کو مجتہدین نے قیاس اَور رائے پر ترجیح دی ہے۔ اِنٹر ویو میں کہا گیا ہے کہ حاتم اَصم اَور اِبن عُلیہ کے قول شاذ پر عمل کیا جا سکتا ہے لیکن آپ ہی سوچ لیں کہ خلفائے راشدین کے فیصلے جن پر کسی صحابی نے اِختلاف ہی نہیں کیا جن پر اُس دَور سے خلافت عثمانیہ ترکیہ کے خاتمہ تک تیرہ سو تیس سال عمل جاری رہا ہے جن پر ائمہ اَربعہ کی تصریحات موجود ہیں اَور اِن پر اِجماعِ اُمت چلا آرہا ہے چھوڑ کر قول شاذ پر عمل کرنا دین کہلا ئے گا یا بے دینی؟ اِجتہاد جائز ہے مگر اُصول کے تحت ہوگا۔ خلفائے راشدین عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے فیصلوں کی پابندی عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ کے تحت سب پر ضروری ہے اِس کے مقابلہ میں بعد کے کسی عالم کے قول ِشاذ پر چلنا اِجتہاد نہیں گمراہی ہوگا۔ اِمام اَوزاعی نے فرمایا کہ جو علماء کے نادِر اَقوال پر چلنا اِختیار کرے گا وہ اِسلام سے نکل جائے گا۔ مَنْ اَخَذَ بِنَوَادِرِ الْعُلَمَائِ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ ۔ (تذکرة الحفاظ ص ١٨٠ ج١) اللہ ہم سب کو صراط ِمستقیم پر قائم رکھے۔ اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہ حامد میاں غفرلہ جامعہ مدنیہ لاہور ٩ ذی الحجہ ١٤٠٤ ھ/ ٦ ستمبر ٤ ١٩٨ئ