ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
مساجد کے اکثر اِمام بوڑھے اَور ایک ہی شکل و صورت کے ہیں ڈاڑھی اَور خاص کر لمبی ڈاڑھی کا رواج نہیں ائمہ حضرات کی بھی بہت بہت چھوٹی ڈاڑھیاں ہیں۔ ہم نے ایک نوجوان سے ڈاڑھی کے بارے میں پوچھا تو اُس نے کہا لَیْسَ ضروری یہ کوئی ضروری نہیں اِس ڈاڑھی پر ایک عجیب واقعہ اَور حادثہ بھی ہوا ہمارے اَمیر جناب مولوی آفتاب صاحب کی ڈاڑھی بڑی بے ہنگھم اَور بڑھی ہوئی تھی اُنہوں نے چاہا کہ اِس کو ذرا خراش تراش کر برابر کر وایا جائے وہ ایک حجام کے پاس گئے اَور اُس سے اپنی مخصوص عربی میں کہا کہ بھائی میری یہ ڈاڑھی ذرا درست کر دو۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ایک آدمی وہاں آئے جن کی ڈاڑھی بڑی تھی میں نے مزید تاکید کے لیے کہا کہ کَمِثْلِ ھٰذَا شَیْخ یعنی جس طرح اِس بزرگ کی ہے اِس طرح بنا دو۔ وہ کہتے ہیں کہ میں عینک اُتار کر اَور آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا وہ ڈاڑھی کو درست کرتا رہا جب آخر میں نے آنکھیں کھولیں اَور عینک لگا کر دیکھا تووہ ڈاڑھی کا کام تمام کر چکا تھا میں نے اُس سے کہا کہ یہ تو نے کیا کیا ؟اُس نے کہا کہ شَیْخ لَابَأْسَ کوئی فکر اَور پریشانی کی بات نہیں لِحْیَہْ مَوْجُوْد ڈاڑھی موجود ہے۔ دراصل وہاں ڈاڑھیاں ناپنے کا اِس طرح رواج نہیں جس طرح ہمارے یہاں ہے۔ ایک مسجد میں ہم نے نماز پڑھی وہاں جو اِمام تھے اُن کے منہ پر بس ایک ڈاڑھی نما لکیر تھی اَور وہ کافی عمر رسیدہ بھی تھے ایک لطیفہ بھی ہوا جب وہ نماز سے فارغ ہو کر مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ حضرت یہاں کوئی عورت اِمام ہے دُور سے وہ بالکل بوڑھی اَماں لگ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ چلیں دیکھتے ہیں ہم جب قریب گئے تو ہمارا اَندازہ غلط ہوا وہ مرد تھے۔ اُن کا نام تھا الشیخ عبدالقیوم وہ مصر کے فارغ التحصیل تھے ہم نے جب اپنا تعارف کروایا تو وہ بہت خوش ہوئے اَور ہمیں دعوت دی کہ آپ میرے ساتھ گھر چلیں اَور چائے پئیں جب اُنہوں نے بے حد اِصرار کیا تو ہم اُن کے خلوص کو ٹھکرا نہ سکے اَور اُن کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گئے ہمارے ساتھ چلنے پر وہ بے حد خوش ہوئے اُن کا گھر مسجد سے کافی دُور تھا پورے راستے اُنہوں نے ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ تھامے رکھا جس سے اُن کے اِخلاص پیار اَور خوشی کی جھلک نما یاں ہو رہی تھی۔ اُنہوں نے ہمیں مراکش کا روایتی قہوہ جس میں تازہ پودینا ڈال کر بنایا جاتا ہے پیش کیا اَور گھر کی بنی ہوئی پنجیری، بسکت اَور جو کچھ گھر میں موجود تھا ہمارے سامنے لا کر رکھ دیا۔ عربوں کے اَندر مہمان نوازی کی جو خصوصی صفت ہے اُس کا اظِہار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہم نے اُن سے