ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
''ایک روز مسجد نبوی (علیٰ صاحبہ الصلوٰة والسلام )میں بانتظارِ جماعت بوقت ِظہر یا عصر بیٹھا ہوا تھا۔ یکبارگی ایسا معلوم ہوا کہ میرا تمام جسم حضرت گنگوہی قدس سرہ العزیز کا جسم ہو گیا ہے یہ حالت اِس قدر ہو گئی کہ میں اپنے جسم کو اپنا نہیں پاتا تھا اَور تعجب سے ہاتھ کو دانتوں سے کاٹتا تھا کہ دیکھوں یہ میرا جسم ہے کہ نہیں اگر نہ ہو گا تو تکلیف محسوس نہ ہو گی۔ یہ حالت تھوڑی دیر گھنٹہ دو گھنٹہ رہی پھر زائل ہو گئی۔ میں نے اِس حالت کو بھی لکھا حضرت نے جواب میں فرمایا کہ یہ حالت فنا فی الشیخ ہونے کی ہے۔'' (نقش حیات ص ٩٢ ج ١) مشائخ سے اِس بے پناہ تعلق اَور محبت کے باعث آج آپ اپنے مربی و شفیق اُستاذ و شیخ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔دیکھنے والوں کو تعجب ہوتا ہے کہ جس جگہ حضرت شیخ الاسلام کا مزار ِمقدس بنا ہوا ہے اُس جگہ اِتنی جگہ نہیں تھی کہ کوئی قبر بنائی جا سکے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا شفیق اَور مربی اُستاذ نے اپنے لاڈلے اَور چہیتے جانشین کے لیے کروٹ لے لی ہو اَورپہلو میں لٹانے کے لیے جگہ چھوڑ دی ہو جس طرح حیات میں آپ اپنے شفیق اُستاذ سے جدا ہونا پسند نہیں کرتے تھے قدرت نے ایسا انتظام کیا کہ وصال کے بعد بھی شفیق اُستاذ کا پہلو عنایت فرمایایہ سب اَلْحُبُّ فِی اللّٰہْ کا نتیجہ ہے۔ یہ کیفیت اُسے ملتی ہے کہ جس کے ہے مقدر میں مئے اُلفت نہ خم میں ہے نہ شیشہ میں نہ ساغر میں محبت مسبّب ، محبت سبب محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب محبت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا محبت ہی ہے مثردئہ کامرانی محبت ہی ہے حاصلِ زندگانی محبت نہ ہوتی تو کچھ بھی نہ ہوتا (یہ اَشعار بندے سے فی البدیہ ہو گئے غلطی ہو تو معاف کرنا۔( عزیز الرحمن غفرلہ)(جاری ہے)