ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2010 |
اكستان |
|
تمام رات اِس راز کو معلوم کرنے کے لیے بیدار رہا اَور دُور سے جھانکتا رہا۔ جب رات کے دو بجے تو یہی حضرت شیخ الاسلام ٹوکرا لے کر پاخانے میں داخل ہوئے اَور پاخانہ بھر کر جنگل کا رُخ کیا فوراً ہی میں نے جا کر راستہ روک لیا تو اِرشاد فرمایا دیکھئے کسی سے تذکرہ نہ کیجئے گا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت شیخ الہند نے پاخانہ کی نالی صاف کرنے کے لیے بھنگی کو طلب کیا اِتفاق سے بھنگی نہ ملا تب حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نے اپنے دست ِمبارک سے نالی کو صاف کر دیا۔'' ( حیات شیخ الاسلام اَز مولانا محمد میاں صاحب) یہی نہیں بلکہ آپ نے اپنی جان و مال تمام ساز و سامان اَور راحت و آرام کو اپنے مشائخ کی خدمت میں صرف کر دیا چنانچہ جس وقت حضرت شیخ الہند مالٹا کے لیے گرفتار کیے گئے ہیں تو آپ نے بھی ساتھ دیا اَور حضرت شیخ الہند کی خدمت کی وجہ سے ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کیں ١ اَور یہ گوارہ نہ کیا کہ آپ آزاد رہیں اَور شفیق اُستاذ جیل کی صعوبتیں برداشت کرے چنانچہ اِرشاد فرماتے ہیں : ''چونکہ میں مدینہ منورہ سے فقط مولانا (شیخ الہند) کی خدمت کے لیے نکلا ہوں اِس لیے مجھ کو خدمت میں رہنا ضروری ہے اگر جدّہ سے مولانا ہندوستان تشریف لے گئے تو میرے ساتھ رہنے کی ضرورت نہیں وہاں مجھ سے اعلیٰ اعلیٰ خدام موجود ہیں اَور کسی دوسری جگہ اُن کو بھیجا گیا تو میرا ساتھ رہنا ضروری ہے اِس لیے جس طرح ممکن ہو مجھ کو مولانا (شیخ الہند) کے پاس بھجوا دیجئے۔'' (اَسیر مالٹا ص ٤١) جیل خانہ کی تکلیف کوئی معمولی تکلیف نہیں ہوتی ہے۔ جزیرہ کے قید خانہ کی حقیقت اِس طرح بیان فرمائی ہے : ١ حضرت شیخ الہند نے بھی اپنے اُستاد مولانا محمد قاسم صاحب کی خدمات کی مثالیں قائم کر دی ہیں جیسی اُنہوں نے اپنے شیخ کی خدمت کی ایسی ہی اِن کی گئی چنانچہ نانوتہ سے دیو بند کا پورا راستہ، برسات کا زمانہ، موسلا دھار بارش، راستہ خراب، آپ نے اِس حالت میں پیدل سفر طے کیا ہے کہ مولانا نانوتوی کو بخار ہے ایک ہاتھ سے حضرت اُستاذ کو سہارا اَور ایک ہاتھ میں گھوڑے کی لگام ہے۔