ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2010 |
اكستان |
|
ہوگئیں، وہ اِس پر دُوسری بیویوں کے مقابلے میں فخر کیا کرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے عزیزوں نے آنحضرت ۖسے کیا اَور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے کردیا۔(البدایہ) بعض روایات میں ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا آنحضرت ۖ کی دُوسری بیویوں سے بطور ِ فخر فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے والدوں نے (یا دُوسرے اَولیاء نے ) کیے اَور میرا نکاح عرش والے نے کیا چونکہ اللہ جل شانہ نے اُن کا نکاح خود کردیا اِ س سے دُنیا میں دُوسرے نکاحوں کی طرح آپ ۖ کا نکاح حضرت زینب رضی اللہ عنہاسے نہیں بلکہ آیت کا نازل ہونا ہی نکاح تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس بغیر اِجازت ہی مکان میں چلے گئے(الاستیعاب،الاصابہ)۔ اِس واقعہ ٔ نکاح سے کئی چیزیں معلوم ہوئیں۔ (١) جسے کوئی شخص اپنا بیٹا بنا لے تو وہ اُس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا ،بنائے ہوئے بیٹے کی بیوی سے نکاح درست ہے جبکہ وہ طلاق دے دے اَور عدت گزر جائے۔اہل عرب اِس بات کو بہت برا سمجھتے تھے اَور بنائے ہوئے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرنے کو اَیسا سمجھتے تھے جیسے حقیقی بیٹے کی بیوی سے کوئی شخص نکاح کر لے۔ آنحضرت ۖ کو پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ زینب سے آپ ۖ کا نکاح ہوگا لیکن آنحضرت ۖ اِس خبر کو ظاہر کرنے سے ہچکچاتے رہے اَور لوگوں کی بدزبانی کے خوف سے اِس بات کو پوشیدہ رکھا تاکہ یوں نہ کہیں کہ دیکھو بیٹے کی بیوی سے نکاح کر لیا لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ عرب کی یہ جہالت ٹوٹے اَور بنائے ہوئے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلینااِسلام میں جائز سمجھ لیا جائے اِس لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ۖ سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح کردیا اَور آنحضرت ۖ کو تنبیہ فرماتے ہوئے قرآنِ پاک کی یہ آیت نازل فرمائی : وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَااللّٰہُ مُبْدِیْہِ وَ تَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَاہُ ''اَور تم اپنے دِل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اَور تم لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ اَللہ اِس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ اُن سے ڈرو۔'' اِس آیت میں اللہ جل شانہ کی طرف سے آنحضرت ۖ کو تنبیہ کی گئی جس کا عنوان گرفت اَور مواخذہ کا ہے۔ حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ آنحضرت ۖ پر اِس آیت سے زیادہ سخت