ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
ہم ایک ایسا واقعہ لکھتے ہیں جو سوانح نگاروں نے نہیں لکھا اَور مولانا آزاد نے بھی نہیں لکھا نہ ہی وہ لکھ سکتے تھے اَور اَب ہندوستان کے مسلمانوں ہی کی وجہ سے مولانا آزاد کی پوری بات ہم لکھ سکتے ہیں لیکن خلاصہ یہ ہے کہ مولانا آزاد نے نواب ممدوٹ، لیاقت علی خاں اَور چودھری خلیق الزماں سے رابطہ قائم کیا اَور اُن کے ذریعہ قائد اعظم سے کہلایا کہ آپ پنجاب کی تقسیم نہ مانیں۔ قائد اعظم نے جواب دیا تھا کہ وہ کیا جانتے ہیں اَور ہندو کب راضی ہوگا؟ اُنہوں نے اِن ہی مذکورہ دو اصحاب میں سے ایک سے پھر رابطہ قائم کیا اَور کہلایا کہ میں اِس عنوان سے کانگریس کو راضی کرلوں گا کہ اِس علاقہ میں سِکھ رہتے ہیں انہیں پاکستان ہی میں جانے دو لیکن وہ صاحب مولانا کے پاس آئے پیغام اُنہوں نے اِتنی دیر سے پہنچایا کہ دستخط ہوچکے تھے بس قدرت کو ایسا ہی منظور تھا اگرچہ مولانا آزاد بہت مخلص تھے مگر ممکن ہے قائد اعظم کو اُن کے اخلاص کا تجربہ نہ ہو اَور شک میں رہے ہوں اِس لیے اِلتفات نہ کیا ہو۔ غرض نصف پنجاب اِس کے ساتھ کشمیر اَور دُوسرے بازو میں پورا آسام اَور نصف بنگال جس میں کلکتہ جیسا عظیم شہر اَور ٹاٹاوغیرہ کے کارخانے ہیں سب ہاتھ سے جاتا رہا۔پاکستان میں قائد اعظم کے بعض پرانے مخلص ساتھی ملک کی زبوں حالی سے بہت بد دِل ہوکر دُنیا سے رُخصت ہوئے۔ راجہ صاحب محمود آباد مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے۔ مسلم لیگ کے پہلے صدر سر آغا خاں تھے اَور دُوسرے صدر راجہ صاحب تھے اَور رئیس احمد جعفری اُن کے اِتنے معتقد ہیں کہ اُنہوں نے اپنی بہت بڑی تالیف ''خطبات ِ قائد اعظم'' اِن ہی کے نام منسوب کی ہے۔ جناب مختار مسعود صاحب نے راجہ صاحب محمود آباد کا ایک اِنٹرویو دیا ہے جو ٨اگست ١٩٧٠ء کو رات کے کھانے کے وقت ملاقات پر لیا گیا تھا۔ ہم اُس میں سے فقط راجہ صاحب کی گفتگو اُن کے خیالات کا ماحصل پیش کرنے کے لیے نقل کررہے ہیں۔ اُنہوں نے بتلایا کہ قائد اعظم ١ کو ١٩٤٥ء میں تپ ِدق کا ١ ساڑھے تین سال قبل بمبئی میں قائد ِ اعظم کے معالجوں نے اِن کو اِس خطرہ سے آگاہ کیا تھا لیکن قائد نے یہ بات راز بناکر چھپارکھی تھی( محمد علی جناح ص ٣٢١)۔ مزید کیفیات جو صحت کی وجہ سے تھیں اِس کتاب کے ص ٢١٦ سے آگے تک دیکھیں۔ یہ بات بڑی حد تک درُست ہے۔ مولانا آزاد نے ایک مرتبہ قائد اعظم سے فرمایا کہ اگر مسلمانوں کے لیے تقسیم ِ ملک کے لائحہ عمل پر چلنا ہے تو دس سال ٹھہرجائیں تاکہ سب مل کر اِسی نقطۂ نظر سے کام کریں۔ قائد ِ اعظم نے جواب دیا کہ دس سال کا عرصہ بہت بڑا ہے۔ مولانا آزاد نے فرمایا کہ قوموں کی زندگی میں دس سال کچھ نہیں ہوتے۔