ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
مرض ہوگیا تھا اَور اِس راز کاعلم صرف مس فاطمہ جناح اَور ڈاکٹر رحمن کو تھا۔ دونوں نے اِس بات کو پوشیدہ رکھنے کے لیے باقاعدہ حلف لے رکھا تھا۔ اُنہوں نے اِشارہ کیا کہ بہت سے فیصلے قائد ِ اعظم نے عجلت میں کیے ہوں گے کہ شاید موت کسی اَور فیصلے کے لیے مہلت ہی نہ دے۔ کہنے لگے کہ جب ہندوستان کے آخری وا ئسرائے نے اپنا قطعی فیصلہ قائد ِ اعظم کو سنایا اَور ایک ایسے پاکستان کی پیش کش کی جس کا حدودِ اَربعہ ١ نادرست اَور نامکمل تھا اَور کہا کہ یا اِس کٹے پھٹے پاکستان کو قبول کرو یا متحدہ ہندوستان۔ تو وہ بے حد غمزدہ اور پریشان ہوئے۔ قائد ِ اعظم نے جب اِس بات کا ذکر راجہ صاحب سے کیا اُس وقت وہ نزار و نِڈھال تھے وہ آرام کرسی پر ڈھیر ہوگئے، ٹھنڈی آہ بھری اَور سوچ میں ڈوب گئے۔ دیر کے بعد صرف اِتنا کہا کم اَز کم ہمیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی جگہ تو میسر آئی۔ ہم نے یہ سنا تو ہم بھی نِڈھال ہوکر صوفے میں دھنس گئے۔ (راجہ صاحب) فرمانے لگے کہ اگر قائد اعظم آج زندہ ہوتے تو وہ کچھ اَور سوچتے، کچھ اِس برعظیم کے حالات اُن پر اَثر انداز ہوتے اور کچھ بیرونی دُنیا کے واقعات۔ وہ کسی اَور نہج پر سوچتے اَور کسی اَور راہ پر چلتے۔ جنوری ١٩٤٧ء میں راجہ صاحب نے دل لگی میں قائد اعظم سے پوچھا کہ اگر پاکستان نہ بن سکا تو پھر کیا ہوگا؟ قائد اعظم نے بقول راجہ صاحب جواب دیا کہ آسمان تو گرنے سے رہا۔ راجہ صاحب نے کہا میں مذاق نہیں کررہا۔ قائد اعظم نے فرمایا میں بھی مذاق نہیں کررہا۔ جانتے ہو انگریزی میں دو حرف ہیں ایم اَور ایل ۔ ان سے لفظ مسلم لیگ بھی بنتا ہے اَور مائنارٹیز ٢ (اقلیت) لیگ بھی۔ ہندئووں کی قیادت برہمن اَور بَنیے کے ہاتھ ہے ہم سب مل کر اُنہیں ناک چنے چبوادیں گے۔ اَب راجہ صاحب کچھ اَور کھل گئے مسلم لیگ نے پاکستان نہیں بنایا۔ مسلم لیگ کہاں اِتنی منظم تھی کہ اِتنا ١ کاش پہلے سے مسلم لیگ نے کوئی نقشہ تجویز کیا ہوتا اور اُس پر اُس وقت پوری قوت سے جم جاتی۔ ٢ یہی بات جمعیة علمائِ ہند کے فارمولے میں کشف ِ حقیقت میں حضرت مدنی نے بیان فرمائی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم ہند و اَقلیتیں مل سکتی ہیں اَور مسلمانوں کی قوت کا تناسب مرکز میں ٥٥ فیصدی ہوسکتا ہے۔