ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ( مرتب : حضرت مولانا ابوالحسن صاحب بارہ بنکوی ) ٭ اُستاد کااحترام اُسی وقت تک ہے جب تک وہ صراط مستقیم پر ہے اَور جبکہ اُس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام اَور اِتباع سلف ِکرام کو چھوڑدیا اور تمام مسلمانوں کے اَساتذۂ کرام کوچھوڑ دیا اَور باغیوں اَور غیر مقلدوں اور اہلِ ضلال میں شامل ہو گیا تو اُس کا کوئی احترام باقی نہیںرہا۔ ٭ میرا پہلے یہ خیال تھاکہ تحریک اسلامی مسلمانوں کی علمی اور عملی ،دُنیاوی اَور دینی کمزوریوں اور ان کے اِنتشارات کو دُور کرنے اور مسلمانوں کو منظّم کرنے تک ہی محدودہے اگرچہ طریق تنظیم میں اختلاف رائے ہو ،اِس لیے میں نے اُن کے خلاف آواز اُٹھانا یا تحریرکرنا مناسب نہ سمجھا تھا ۔اگرچہ افراد جماعت اور قائد ِجماعت کی طرف سے بسا اَوقات ناشائستہ کلمات تقریر اَور تحریر میں معلوم ہوئے مگر سب سے چشم پوشی کرنا ہی اَنسب معلوم ہوامگر آج کہ میرے سامنے اطراف و جوانب ہندو پاکستان سے آنے والے مودودی صاحب کی تصانیف کے اِقتباسات کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور پانی سر سے گزر گیا ہے تو میں اِن کے دیکھنے اور سمجھنے سے مندرجہ ذیل نتیجہ پر پہنچنے میں اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں۔ تحریک اِسلامی خلاف سلف صالحین مثل معتزلہ ، خوارج، روافض، جہمیہ وغیرہ فرقِ قدیمہ اَور مثل قادیانی ، چکڑالوی ، مشرقی، نیچری ، مہدوی،بہائی وغیرہ فرقِ جدیدہ ایک نیا اِسلام بنانا چاہتی ہے اور اُسی کی طرف لوگوںکو کھینچ رہی ہے ، وہ اُن اصول و عقائد و اعمال پر مشتمل ہے جوکہ اہل سنت و الجماعت اور اَسلاف کرام کے خلاف ہیں۔ (١) وہ تفسیر بالرائے کی قائل ہے ، ہر وہ پروفیسر جو کہ ملحد انِ یورپ اور اُن کی نئی روشنی کا حامل اور تھوڑی بہت عربی زبان سے واقف ہے ، اُس کے نزدیک یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی رائے اور مذاق سے تفسیر کرکے مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ بنے،خواہ اُس کی تفسیر کتنی بھی سلف ِصالحین اَوراقوالِ صحابہ کرام کے خلاف ہو ۔