ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اِس گفتگو کو یہاں روک کر پاکستانی فارمولے کے مطابق کچھ نقشے سامنے لائیں۔ مسلم لیگ کے علماء ِ کرام میں سب سے بڑی شخصیت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی کی ہے۔ اُن کی تجویز کی تفصیل اَور اُن کے دلائل، اُن کا پیش کردہ پاکستان کا خاکہ پہلے اِن اُمور پر روشنی ڈالیں۔ تصویر کا دُوسرا رُخ - علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمة اللہ علیہ : آپ دیوبند کے رہنے والے خاندانِ عثمانی کے چشم و چراغ اَور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب اسیرِ مالٹا رحمة اللہ علیہ کے نامور ترین تلامذہ میں اَور دارالعلوم دیوبند کے ممتاز ترین اَساتذہ میں سے تھے۔ مفسر ِ قرآن ہیں، آپ نے مسلم شریف کی ایسی شرح لکھی ہے کہ پہلے شارح امام نووی شافعی رحمہ اللہ کی شرح اِس کے سامنے ماند پڑ گئی۔ حضرت مولانا اَنور شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اِس پر بڑے قیمتی الفاظ میں تقریظ فرمائی ہے۔ وَکَفٰی بِہ حُجَّةً۔ تحریک ِ آزادی ہند ٤٢ء کے دوران حضرت مولانا السید حسین احمد صاحب مدنی رحمة اللہ علیہ گرفتار ہوئے تو طلبہ نے دارالعلوم دیوبند کی عمارت ہی میں احتجاجی جلسہ کیا۔ علامہ عثمانی صاحب اُنہیں سمجھا دیتے تو معاملات خراب نہ ہوتے لیکن اُنہوں نے اُن کے خلاف سخت اِقدامات کیے۔ حضرت مدنی رحمہ اللہ کو جیل میں اِس واقعہ کی اِطلاع ملی تو آپ نے اپنے تمام متوسلین و متعلقین کوخطوط میں یہ ہدایات دیں کہ وہ علامہ کاپورا احترام ملحوظ رکھیں۔ مکتوباتِ شیخ الاسلام میں یہ مکاتیب موجود ہیںلیکن علامہ عثمانی رحمہ اللہ پر خود ہی ایک کیفیت غالب تھی۔ اَندیشہ تھا کہ ممکن ہے کہ شوری کے اجلاس میں یہ مسئلہ بُرے اَنداز میں پیش ہو۔ اِسی دوران حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ اَور دیگر سب سیاسی قیدیوں کو اِ س بناء پر رہا کردیا گیا کہ برطانیہ کی پالیسی یہ ہو چلی تھی کہ ہندوستان کو آزاد کردیا جائے اَندیشۂ مسئلولیت میں علامہ عثمانی رحمہ اللہ دارالعلوم سے مستعفی ہوگئے اِسی دوران مسلم لیگ کی طرف میلان بڑھ گیا اَور رابطہ پیدا ہوگیا۔ ہیکٹر بولائتھو اپنی کتاب ''محمد علی جناح '' میں لکھتا ہے : ''(جب سب لیڈر قید میں تھے ) قائد ِاعظم نے اِس دَوران میں اپنے قانونی اَور آئینی طریق ِ کار سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ وہ دِلجمعی سے اپنا کام کرتے رہے اَور سارے ملک میں