ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
قرآنی آیات یا سورة کو بطور ِ جھاڑ پڑھا جا سکتا ہے : اَور قرآنِ پاک کی آیات سے جھاڑ ثابت ہے سفر کرتے ہوئے صحابۂ کرام ایک جگہ گزرے وہاں دیکھا اُن سے کہا کہ بھئی ہم لوگ جارہے ہیں ہمارا وفد ہے یا قافلہ ہے تو تم لوگ حسب ِ معاہدہ ہمارے کھانے پینے کا اِنتظام کرو، تو اِس طرح کے معاہدے تھے کہ اگر مسلمان اُدھر سے گزریں تو وہ لوگ مہمان نوازی کریں گے اَور اگر وہ لوگ اِدھر سے گزریں یا مسلمانوں کی بستی سے گزریں تو مسلمان مہمان نوازی کریں گے آپس میں کوئی تعلقات نہ ہوں پھر بھی معاہدہ ہونا کافی تھا۔ کون سے قبیلے کے ہیں کہاں سے آئے ہیں کون لوگ ہیں یہ پہچان ہوجائے تو اُس کے بعد اُن کے لیے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا مگراُن لوگوں نے کہا کہ ہم نہیں کھلاتے پلاتے اَب اِن کے پاس کہاں اِتنا راشن تھا کہ یہ کچھ کھاپی لیتے جس حال میں تھے رَہے۔ اَب اُس قبیلے کا سردار جو تھا اُس کے بچھو نے کاٹ لیا یا سانپ نے کاٹ لیا لُدِغَ اُس میں وہ بیتاب تھا دوائیں استعمال کیں کوئی فائدہ نہیں ہوا جو کچھ آس پاس کے لوگ جانتے ہوں گے جھاڑپھونک بھی کی ہوگی فائدہ کوئی نہیں ہوا وہ کہنے لگے کہ یہ لوگ جو آئے ہوئے ہیں باہر ٹھہرے ہوئے اِن سے پوچھو اِن میں کوئی جھاڑنے والا ہو، تو اُنہوں نے آکر پوچھا تو ایک صحابی نے کہا کہ ہاں میں جانتا ہوں جھاڑ، کہنے لگے پھر آئو جھاڑدو ۔ ضرورت کی وجہ سے صحابی کا بِلا معاوضہ جھاڑ سے اِنکار : اِنہوں نے کہا ایسے نہیں جھاڑوں گا جب تک تم ہمارے سے طے نہیں کروگے معاملہ، کیا چاہتے ہو؟ اُنہوں نے کہا اِتنی بکریاں دو ہمیں۔ اَب اُنہوں نے مہمان نوازی سے اِنکار کردیا تھا لہٰذا اُن سے بات یہ کی جاسکتی تھی اُنہوں نے کہا ٹھیک ہے اِتنی دے دیں گے جتنی مانگتے ہیں قَطِیْعَةٍ مِّنَ الْغَنَمِ بکریوں کا ایک ریوڑ پچیس کا ہو تیس کا ہو جس پر بولا جاتا تھا اُس محاورے میں عرفِ عام میں وہ طے ہوگیا اَب یہ گئے اَور اِسی طرح سے تُھتکارتے رہے پڑھتے رہے تُھتکارتے رہے کوئی لعاب بھی گویا اُس کے ساتھ لگتا رہا اُس کے جسم کو، چند مرتبہ اِنہوں نے پڑھا اُس سے وہ ٹھیک ہوگیا ایسے ہوگیا کَاَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ جیساکہ اُس کے کوئی بند تھا وہ کُھل گیا اَور چلنے لگا کوئی بے چینی نہیں تھی ٹھیک ٹھاک وَمَا بِہ قَلَبَة ١ اُنہوں نے اپنا جو تھا وعدہ پورا کیا، یہ آگئے ۔ ١ بخاری شریف ص ٨٥٦