ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2010 |
اكستان |
|
اِسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ ( جناب محمد ندیم رضا صاحب،لاہور ) یہ بات عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہ اِسلام اَور اِیمان کا اِقرار کرنے کے باوجود ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے کام کرتے نظر آتے ہیں جو اِسلام کے منافی ہوتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم نے اپنی شخصیت کو اِسلام کے مطابق ڈھالا نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگوں نے اِسلامی شخصیت کو سمجھا ہی نہیں ہوتا اَور اُن کا خیال ہوتا ہے کہ جو شخص نمازی اَور روزہ دار اَور اِسلام کی ظاہری شکل و صورت پر پورا اُتر تاہے تو اُس کی شخصیت اِسلامی ہوتی ہے۔اِس غلطی کی وجہ سے اگراِسی شخص کو کوئی داڑھی والا دُکاندار دَو نمبر چیز بیچ دے تو وہ اِس کا قصور وار بھی اِسلام کو اَور مجموعی طور پر مسلمانوں کو قراردیتا ہے اَور یہ بات عام طور پر سننے میں آتی ہے کہ مولوی ہوتے ہی دو نمبر ہیں یا مسلمان ہیں ہی دھوکے باز۔ یہاں یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ نماز اَور روزہ اِسلام کے اَحکامات ہیں اَور یہ سب مسلمانوں پر فرض ہیں اَور اِسی طرح اِسلام نے ظاہری طور پر پورے کرنے کے لیے بھی کچھ اَحکامات دیے ہیں مثلاً عورتوں کا پردہ کرنا اَور مردوں اَور عورتوں کاایک دُوسرے کی شکل و صورت اِختیار نہ کرنا لہٰذا جو مسلمان بھی اِسلام کے کسی چھوٹے سے چھوٹے حکم کو پورا کرے گا تو اُس کو اُس کا ثواب ملے گا اَور اِسی طرح اگر وہ کوئی گناہ کرے گا تو اُسے اِس کا عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے : پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اُس کو دیکھ لے گا اَور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھ لے گا۔ ( سُورہ زلزال٨،٧) اِس وضاحت کے بعد اَب یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ایک شخص اِسلام کے کچھ اَحکامات تو پورے کررہا ہوتا ہے لیکن بہت سے احکامات میں وہ اِسلام کی نافرمانی کرتا رہتا ہے۔ اِس چیز کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ اِنسان کی شخصیت کی حقیقت کیاہے۔ اِنسان کی شخصیت دو پہلوؤں سے مل کر بنتی ہے ذہنیت اَور رُجحانات۔ اِنسان کی ذہنیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کوئی بھی عمل کرتے ہوئے یا کسی بھی مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کسی بنیادی سوچ کی طرف رُجوع کرتا ہے